یہ فیصلہ عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کی گئی ایک اپیل کی سماعت کے دوران جاری کیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) افنان کریم کندی نے چیئرمین پیمرا کی تقرری کے بارے میں ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ تقرری بعض قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی تھی۔
جس کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے چوہدری راشد کی بحالی معطل کرنے کا حکم دیا۔
سیکریٹری داخلہ کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق چوہدری راشد کی بطور چیئرمین تقرری سے قبل وزیراعظم کو بعض حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چوہدری راشد کی تقرری کے لیے جاری کی گئی سمری میں کچھ پیراگراف موجود نہیں ہیں۔
دوسری جانب چوہدری راشد کے وکیل بیرسٹر وسیم سجاد نے دلیل دی کہ ان کے مؤکل کسی پیراگراف کی گمشدگی کے بارے میں آگاہ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ان تمام متعلقہ خط و کتابت کا نگران تھا۔
بیرسٹر وسیم سجاد نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کرے کہ سیکریٹری داخلہ کی تیار کردہ اس رپورٹ کی نقل ان کے مؤکل کو فراہم کرنے کی جائے۔
واضح رہے کہ جسٹس نورالحق این قریشی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے 25 مئی کو چیئرمین پیمرا کے عہدے پر چوہدری راشد کی بحالی کا حکم دیا تھا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے 26 جنوری 2013ء نے چار سال کے لیے سابق سیکریٹری اطلاعات و نشریات چوہدری راشد کی تقرری بطور چیئرمین پیمرا کی تھی۔
15 دسمبر 2013ء کو پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ان کا کنٹریکٹ ختم کردیا تھا۔
26 دسمبر 2013ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے چوہدری راشد کو بحال کریا تھا۔ تاہم عدالت نے حکومت کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ اگر چوہدری راشد کی تقرری کے سلسلے میں کسی قسم کی غیرقانونی طریقہ کار سے کام لیا گیا تھا تو اس کا ثبوت پیش کیاجائے۔
حکومت نے اپریل 2014ء میں چوہدری راشد کو دوبارہ برطرف کردیا، لیکن انہوں نے اس سال اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور 25 مئی کو اپنے عہدے پر دوبارہ بحال ہوگئے۔
تاہم چوہدری راشد کا اپنے عہدے پر بحالی کے بعد ان کے دفتر میں گرمجوشی کے ساتھ خیرمقدم نہیں کیا گیا، چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) انہیں ہراساں کررہا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ نیب کے ایک تفتیشی افسر نے انہیں نوٹس جاری کیا تھا کہ اختیارات کے غلط استعمال اور بدعنوانی سے متعلق ایک زیرالتواء معاملے میں وہ اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔
تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل افنان کریم کندی نے عدالت کو مطلع کیا کہ چوہدری راشد 2 کروڑ 80 لاکھ روپے کے ایک بدعنوانی کے ریفرنس کا سامنا کررہے ہیں، جو قومی احتساب بیورو کے سامنے زیرِ التواء ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے چوہدری راشد نے بذاتِ خود اپنی تقرری کے لیے سمری بھجوائی تھی۔
مزید یہ کہ انہوں نے سمری کے اس حصہ کو حذف کردیا تھا، جس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ان کی بطور پیمرا کے چیئرمین تقرری کے خلاف اعتراضات کیے تھے۔
Leave a Reply