واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے سیاسی حریفوں، اسٹیبلشمنٹ اور فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کے جرنیل ہر 3 سال میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں البتہ سیاستدان ملک میں ہمیشہ رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہتر جانتے ہیں کہ ملک کے معاملات کو کیسے چلانا ہے۔
ان کا کہنا تھا وہ ملک کے اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہتے مگر آرمی کو بھی سیاستدانوں کے لیے رکاوٹیں پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
مزید پڑھیں:زرداری کی سیاسی حریفوں اور اسٹیبلشمنٹ پر شدید تنقید
بدھ کو وزیراعظم ہاؤس میں ایک سیاسی مشاورتی اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے اس نازک مرحلے پر افواج پاکستان پر تنقید سے اُن عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کر کے تعمیر و ترقی کے عمل میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کے افسر اور جوان آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے موثر کردار ادا کر رہے ہیں اور انھیں پوری قوم کی حمایت حاصل ہے، ان حالات میں فوج جیسے اہم ادارے پر تنقید کرنا نامناسب اقدام ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ افواج پاکستان اور سیاسی قیادت کے درمیان ہم آہنگی نے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے، اس ہم آہنگی کا مظاہرہ آل پارٹیز کانفرنسوں کے فیصلوں سے بھی ہوچکا ہے، جن میں سیاسی اور فوجی قیادت نے متفقہ طور پر قومی اہداف طے کیے، یہ عمل اسی جذبے کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت قومی سطح کا اتفاق رائے ضروری ہے اور سیاسی استحکام اور قومی اتفاق رائے کے ساتھ ہی ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
Leave a Reply