تاہم بعض حلقوں نے اس فیصلے کو بجلی کے ایسے صارفین کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے، جو باقاعدگی کے ساتھ اپنے بل کی ادائیگی کررہے ہیں۔
حکومت نے چینی اور گندم پر درآمدی ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا ہے، تاکہ ان کی قیمتوں میں کمی کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
یہ فیصلے بدھ کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں لیے گئے، جس کی صدارت وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کی تھی۔
اس کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، تاہم اس کے ملازمین کے لیے دو مہینے کی تنخواہوں کی منظوری دے دی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں شریک بعض لوگوں نے بجلی کے نادہندگان کو رعایت دیے جانے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ایسے صارفین کے لیے غلط پیغام جائے گا، جو بروقت اپنے بل ادا کررہے ہیں۔
لیکن کافی بحث کے بعد اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ان نادہندگان کے خلاف چھاپہ مار کارروائی کے آغاز سے قبل ایسے لوگوں کو ’ایک آخری موقع‘ دینا چاہیے، جنہوں نے 2009-12ء کے عرصے کے دوران بجلی کے بلوں کے نادہندہ ہیں۔
پانی و بجلی کی وزارت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو مطلع کیا کہ اگر کچھ رعایت کی اجازت دے دی جائے تو جولائی 2009ء سے جولائی 2012ء کے عرصے کے دوران کے بلوں کی مد میں تقریباً 182 ارب روپے نجی صارفین سے وصول کیے جاسکتے ہیں۔
اس وزارت نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ایسے نادہندگان کو 50 فیصد چھوٹ کی اجازت دی جائے جو اگلے مہینے اپنے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے آمادہ ہوں، 40 فیصد چھوٹ ایسے صارفین کے لیے جو اپنے بقایا بل کی ادائیگی اگست میں جبکہ 30 فیصد کی چھوٹ ایسے صارفین کے لیے جو اپنے بقایاجات ستمبر کے مہینے میں ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اس موقع پر یہ سفارش بھی کی گئی وصول ہونے والی رقم کا 10 فیصد بجلی کے کمپنیوں کے عملے کے لیے جبکہ 5 فیصد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مختص کیا جائے، جو اس رقم کی وصولوں میں ان کمپنیوں کی مدد کریں گے۔
پانی و بجلی کی وزارت کا خیال تھا کہ صرف گھریلو صارفین کو ہدف بنانا چاہیے۔
تاہم اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سرکاری ایجنسیوں کے اہلکاروں کے لیے بھاری نقد انعام کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا، اور قابل ذکر وصولی کے لیے صرف بجلی کی کمپنیوں کے لیے 5 فیصد ترغیبی رقم کی منظوری دی۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہےکہ ’’اقتصادی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم جولائی 2012ء سے قبل تین سال کی مدت کے دوران عدم ادائیگی کے تمام کیسز کو وصولی کے لیے نیب کے حوالے کردیا جائے گا۔‘‘
اس بیان کے مطابق اس اجلاس میں ایسے لوگوں کے لیے ترغیبی پیکیج کی بھی منظوری دی، جو اپنے بقایاجات کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اس پیکیج کے تحت ایسے نادہندگان جو اس سال 31 جولائی تک مکمل ادائیگی کے لیے تیار ہیں، انہیں 30 فیصد تک کی چھوٹ دی جائے گی۔ پچیس فیصد کی چھوٹ ایسے نادہندگان کو دی جائے گی، جو اپنے بقایاجات کی مکمل ادائیگی اگست میں کریں گے، جبکہ ستمبر کے مہینے میں اپنے بقایاجات ادا کرنے والے نادہندگان کو 20 فیصد کی چھوٹ دی جائے گی۔‘‘
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے چینی کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں 20 سے 40 فیصد تک اضافہ کردیا ہے، جبکہ گندم کی درآمد پر ریگولیٹری میں 25 سے 40 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’’ڈیوٹیز میں اضافے کا یہ فیصلہ کاشتکار برادری کے مطالبے اور ان اشیاء کے وافر ذخائر کی روشنی میں لیا گیا ہے۔‘‘
مزید یہ کہ شوگر ملوں کے مالکان سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد گنے کے کاشتکاروں کے واجبات ادا کردیں۔
اس اجلاس میں وزارتِ دفاع کی درخواست پر چھ گشت کرنے والے بحری جہازوں کی خریداری کے لیے خودمختار ضمانت کے اجراء کی بھی منظوری دی، جو پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے لیے 13.87 ارب روپے کی لاگت پر نرم قرضے کی بنیاد پر حاصل کیے جائیں گے۔
وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان چائنا شپ بلڈنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی کو ضمانت کے اجراء کے لیے بھی اقدامات کرے گا۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سندھ اور پنجاب کی جانب سے اس سال 31 جولائی تک گندم اور آٹے کی برآمد کی مدت میں بھی توسیع کردی۔
یاد رہے کہ جنوری میں اقتصادری رابطہ کمیٹی نے ان دونوں صوبوں کو 12 لاکھ ٹن گندم اور فروری میں آٹے کی برآمد کی منظوری دی تھی۔
تاہم بعد میں سندھ کے لیے آخری تاریخ کو 30 اپریل اور پنجاب کے لیے 15 مئی تک بڑھا دیا گیا تھا، لیکن مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔
اس اجلاس نے پاکستان مشین ٹول فیکٹری کے ملازمین کو اپریل اور مئی کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 6 کروڑ چالیس لاکھ روپے کے اجراء کی منظوری دی۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، جو پیداواری ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔
کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ سے کہا کہ وہ اپنی کارکردگی کے سلسلے میں ایک واضح طریقہ کار فراہم کرے تاکہ مستقبل میں اس کی حیثیت کے بارے میں اسٹریٹیجک فیصلہ لیا جاسکے۔
Leave a Reply