درجہ حرارت میں کمی، لیکن ہلاکت خیز گرمی برقرار

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ جان لیوا گرمی کی شدید لہر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور کراچی میں درجہ حرارت میں کمی آنے اور موسمیاتی پیٹرن بہتر ہونے کے باوجود سمندری ہوائیں اب تک چلنا شروع نہیں ہوئی ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ کراچی میں 22 مزید اموات کے بعد اس شہر میں اب تک ہونے والی اموات کی تعداد 1256 تک پہنچ گئی ہے، جبکہ بدین اور تھر کے اضلاع میں مزید تین اموات کے بعد سندھ کے دیگر اضلاع میں گرمی کی شدت کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 101 ہوگئی ہے۔ یوں صوبے بھر میں اموات کی مجموعی تعداد 1357 تک جاپہنچی ہے۔

صوبائی حکومت نے اس سے قبل کہا تھا کہ گرمی کی شدت سے صرف کراچی میں ایک لاکھ سے زیادہ تعداد میں افراد متاثر ہوئے تھے۔

اتوار کو کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے سول ہسپتال کے دورے کے بعد سے پیر کے روز تک وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے وزراء کے متواتر دوروں کے باوجود صوبائی کابینہ نےمنگل کے روز اپنے اجلاس میں اس حوالے سےکوئی پالیسی پیش نہیں کی، یوں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کومزید تنقید کا موقع فراہم کردیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے رکن سید حفیظ الدین نے اس حوالے سے کہا کہ ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت صوبے کے اور خاص طور پر کراچی کے عوام کی بھلائی کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔‘‘

واضح رہے کہ صوبائی کابینہ کی توجہ پورے اجلاس کے دوران نیشنل ایکشن پلان پر مرکوز رہی۔

تاہم ماہرین ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ حکام کو موجودہ گرمی کی لہر کی وجہ سے مزید جانوں کے زیاں کو کم کرنے کے لیے بہت زیادہ کام کرنا ہوگا، اور مستقبل میں اس طرز کی مزید موسمیاتی آفات کے خطرے کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔

ورلڈ کنزورویشن یونین سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر ماحولیا ڈاکٹر طاہر قریشی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’پچھلے کئی برسوں سے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جنوبی ایشیا میں ممکنہ طور پر گرمی کی شدید لہر کی تباہی سے متواتر خبردار کیا گیا تھا، لیکن ہم نے سنی ان سنی کردی اور اس آفت نے ہمیں بے خبری میں پکڑلیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ درجہ حرارت میں کمی آنے کے باوجود سمندری ہوائیں مکمل طور پر واپس نہیں آئی ہیں، یہ ہوائیں اس شہر کا کولنگ سسٹم ہیں۔

ڈاکٹر طاہر قریشی نے تصدیق کی کہ بہت زیادہ کمزور افراد، خاص طور پر غریب طبقے کے ضعیف بزرگوں اور بے گھر مفلسوں کے لیے صورتحال اب بھی سنگین اور مہلک ہے۔

شہر کے ہسپتالوں کے حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی اکثریت کا تعلق کم آمدنی والے طبقے سے تھا، جن میں بہت سے بے گھر، بھکاری اور منشیات کے عادی افراد بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر طاہر قریشی نے کہا کہ ’’اگرچہ درجہ حرارت پہلے کی طرح زیادہ نہیں ہے، تاہم سمندر میں ہوا کا کم دباؤ اب بھی برقرار رہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ گرمی کی لہر سندھ میں اب بھی موجود ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ قلیل مقدار میں سمندری ہوائیں گرمی کی لہر کی شدت کو کم کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

مختلف ہسپتالوں میں حکام بھی شدید گرمی کی صورتحال سے پریشان تھے، ان کا کہنا تھا کہ بظاہر اس کی شدت کم ہوگئی ہے، لیکن ایمرجنسی کے شعبے میں اب بھی گرمی کی لہر سے متاثرہ مریضوں کو لایا جارہا ہے۔

سول ہسپتال کراچی کے سربراہ ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ ’’گرمی سے متاثرہ مریضوں کی آمد میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن ایسے مریض اب بھی ہمارے پاس آرہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر ضعیف ہیں اور غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ہسپتالوں میں آنے والے زیادہ تر مریضوں کو شدید بخار تھا اور ان کی حالت انتہائی تشویشناک تھی، بہت سے مریض ایک یا دو دن پہلے ہیٹ اسٹروک سے متاثر ہوئے تھے اور ان کی حالت بعد میں بگڑ گئی تھی۔

صوبائی محکمہ صحت کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ شہر کے ہسپتالوں میں اب بھی ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کو خاص طور پر دوپہر کے وقت لایا جارہا ہے، جب درجہ حرارت ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہیٹ اسٹروک سے ہلاک ہونے والے افراد میں خواتین کی تعداد 37 فیصد تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بالغ افراد کی بہ نسبت بچے ہیٹ اسٹروک سے محفوظ رہے، اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ بچے عام طور پر روزے نہیں رکھ رہے تھے اور انہیں جب ضرورت پڑتی وہ پانی پی لیتے تھے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ایک نمائندے نے بتایا کہ چند دن پہلے موصول ہونے والی دو مزید لاوراث میتوں کی تدفین انہوں نے اپنے قبرستان میں kkmکردی تھی۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.