سینیٹرز مارکو روبیو اور باربرا باکسر نے حال ہی میں دس میں سے آٹھ ملزمان کو بری کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکا میں پاکستانی سفیر جیل عباس جیلانی کے نام تحریر کیے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہم پاکستانی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس سفاکانہ حملے کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے مٰں لانے کے لیے شفاف اور عوامی انداز میں اپنی کوششوں کی رفتار کو دوگنا کردے۔‘‘ 29 جون کو ارسال کیا گیا یہ خط منگل کے روز میڈیا کو جاری کیا گیا۔ ریپبلیکن پارٹی سے رکن مارکو روبیو خارجہ تعلقات پر امریکی سینیٹ کی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی برائے مغربی نصف کرّہ کے صدر ہیں، جبکہ ڈیموکریٹ پارٹی کی رکن باربرا باکسر اس کمیٹی کی رکن ہیں۔ ان دونوں سینیٹروں نے یاد دلایا کہ اپریل میں پاکستانی حکام نے ایک خفیہ سماعت کے بعد اعلان کیا تھا کہ یہ تمام دس ملزمان ملالہ یوسف زئی پر حملے میں اپنا کردار ادا کرنے کے مجرم پائے گئے تھے اور انہیں 25 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس مقدمے کی سماعت کی شفافیت کی کمی اور دس افراد کے خلاف مقدمات کے سلسلے میں اطلاعات کی عمومی غیرموجودگی کے بارے میں شدید تشویس تھی، تاہم انہوں نے اس اعلان کا خیرمقدم کیا تھا۔ پاکستانی سفیر کو ارسال کیے گئے اپنے خط میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ ’’یہ جان کر کہ پاکستانی عدالتی نظام اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے متحرک طور پر کام کررہا ہے، ہم نے اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’یہی وجہ ہے کہ ہم میڈیا کی حالیہ رپورٹوں سے خاص طور پر فکرمند ہیں کہ ان دس مجرموں میں سے آٹھ کو ان کے خلاف عائد کیے گئے الزامات سے بری کردیا گیا ہے۔‘‘ امریکی سینیٹروں نے زور دیا کہ اس بریت نے ’’پاکستان کے عدالتی نظام کی شفافیت اور احتساب کے حوالے سے نمایاں خدشات پیدا کردیے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نہایت احترام کے ساتھ درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام ان دس افراد کے خلاف مقدمات کے حوالے سے ایماندارانہ اور شفاف انداز میں محاسبہ فراہم کرے گا اور ایک معصوم نوعمر لڑکی کو انصاف فراہم کرنے کے لیے اس پر سفاکانہ حملے کے مرتکب افراد کو قرارواقعی سزا دلوانے کے لیے کام جاری رکھے گا۔‘‘ یاد رہے کہ ملالہ یوسف زئی نوبل انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر لڑکی ہیں۔ 2012ء میں جب وہ اسکول سے واپس آرہی تھیں تو طالبان دہشت گردوں نے ان کی اسکول بس کو روک کر ان کا نام پوچھا اور ان کے سر کا نشانہ لے کر گولیاں ماری تھیں۔ انہیں سرجری کے لیے پاکستان چھوڑنا پڑا۔ وہ اب برطانیہ میں مقیم ہیں، لیکن دنیا بھر میں سفر کرکے اپنے مقصد کو فروغ دے رہی ہیں۔ امریکی قانون سازوں نے تحریر کیا ہے کہ طالبان نے ملالہ کو اس لیے نشانہ بنایا کہ وہ خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم کی سرعام وکالت کررہی تھیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پندرہ برس کی لڑکی کو خاموش کرانے کے لیے انتہاءپسندوں کی کوششیں رائیگاں گئیں۔ تمام مشکلات کے باوجود ملالہ جو کہ اب سترہ برس کی ہیں، لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اب دنیا کی چیمپئن ہے، اس عمل کی وجہ سے اس کو 2014ء میں نوبل امن انعام دیا گیاتھا۔
Leave a Reply