‘بعض حلقوں کے انتخابی بیگز دوبارہ کھولے جائیں’

2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے تین ججز پر مشتمل کمیشن کےسامنے بیرسٹر اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا ’’آپ دیگر انتخابی حلقوں میں بھی پنجاب کی طرز کا پیٹرن (ریٹرننگ افسران کے ذریعے نتائج پر اثرانداز ہونا) پائیں گے، جہاں انتخابی بیگز مکمل نہیں تھے اور فارم پندرہ کی طرز کا مواد بھی غائب تھا، لیکن نتائج بعض امیدواروں کے حق میں کردیے گئے تھے۔‘‘

یہ کمیشن جس آرڈیننس کے ذریعے تشکیل دیا گیا ہے، اس کے تحت اسے 120 دنوں کا وقت دیا گیا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ’’یہ تجویز اب بھی 120 دنوں کے اندر اندر مکمل ہونے کے قابل ہے۔‘‘

بدھ کے روز ریحام خان عدالت کے احاطے میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ وہ اپنے شوہر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے ہمراہ بیٹھی تھیں اور جب کارروائی کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ اپنے دلائل مکمل کررہے تھے تو وہ توجہ سے سنتی اور نوٹس لیتی دیکھی گئیں۔

کمیشن نے یاد دلایا کہ وہ اس کا ارادہ ہے کہ اس ہفتے یہ کارروائی ختم کردی جائے۔

بڑی تعداد میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ انتخابی مواد اور متعلقہ ریکارڈز کو ہمیشہ سے ہی بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس حوالے سے سنجیدگی کو ہمیشہ سے برقرار رکھا گیا ہے، اس لیے کہ عدالت کی جانب سے ریکارڈ میں گڑبڑ کو کبھی معاف نہیں کیا گیا۔

فارم 15 کی بڑی تعداد کی گمشدگی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دلیل دی کہ یہ سنگین جرم تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر فارم 15 یا دیگر انتخابی مواد گم ہوگیا ہے، تو اس سے پورے انتخاب پر انگلی اُٹھائی جائے گی، اور اس مجموعی تاثر کو تقویت ملے گی کہ انتخابات کو متاثر کیا گیا ہے۔‘‘

اس موقع پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ پورے پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کررہے ہیں، یا بعض انتخابی حلقوں میں؟

اعتزاز احسن نے جواب دیا ’’اہم توجہ پنجاب پر ہے۔‘‘

لیکن چیف جسٹس ناصر الملک نے ان کی توجہ ان کی ابتدائی درخواست کی جانب مبذول کروائی، جس میں پیپلزپارٹی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی نشاندہی کی تھی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا ’’آپ کی بہت زیادہ توجہ پنجاب پر ہے، لیکن سندھ میں فارم 15 کی گمشدگی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

اس کے جواب میں اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ وہاں پنجاب کی طرز کے پیٹرن کا مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔

اعتزاز احسن نے اصغر خان کے مقدمہ کا حوالہ دیا، جو 1990ء کے عام انتخابات سے قبل 32 سیاسی رہنماؤں اور دیگر افراد کو 14 کروڑ روپے تقسیم کرنے سے متعلق تھا، اور سپریم کورٹ نے ان انتخابات کو آلودہ قرار دیا اور کہا تھا کہ عوام اپنے منتخب نمائندوں کی نمائندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

انہوں نے دلیل دی کہ اگر پچیس سے تیس فیصد انتخابی حلقوں میں قانون کی خلاف ورزیاں اور انتخابی مواد کی گمشدگی پائی جائے تو یہ کمیشن یہ مجموعی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ہیرا پھیری کی گئی تھی یا اس کو متاثر کیا گیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے این اے-124 کا حوالہ دیا، جہاں سے ان کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز ہار گئی تھیں۔bv

انہوں نے کہا کہ جب ایک ٹریبیونل کے سامنے ایک انتخابی پیٹیشن دائر کی گئی تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں حکم دیا تھا کہ ان بیگز کو دوبارہ کھولا جائے، جنہیں انتخابی دستاویزات کی برآمدگی کے بعد دوبارہ سربہ مہر کردیا گیا تھا۔

اس انتخابی حلقے کے 106 پولنگ اسٹیشنوں سے پچاس سے زیادہ فارم 15 گمشدہ پائے گئے، لیکن جب 26 مئی کو انکوائری کمیشن نے ان انتخابی بیگز کو دوبارہ کوکھولنے کا حکم دیا تو وہ جادوئی انداز سے دوبارہ موجود تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی سے غلطی ہوسکتی ہے، انہوں نے کہا کہ سوال یہ نہیں تھا کہ جعلسازی کی گئی ہے، اگر ایسا بھی تھا تو پھر اس کا مقصد کیا تھا۔

اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ اس کا مقصد یقیناً کمیشن کو گمراہ کرنا تھا۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.