حالیہ کچھ مہینوں میں طالبان اور افغان حکام کے درمیان ملک سے باہر کچھ غیر رسمی ملاقاتیں ہوئی ہیں ، تاہم اس مذاکراتی عمل سے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نظر نہیں آ رہی۔
منگل کو کابل میں دو بم دھماکوں کے ساتھ طالبان کی عسکری کارروائیں بھرپور انداز میں جاری ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کے سرکاری ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر ایک جاری بیان میں کہا گیا’اعلی سطحی افغان امن کونسل کا ایک وفد طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے پاکستان پہنچا ہے‘۔
مذاکرات میں پاکستان، امریکا اور چین کے حکام بھی شریک ہیں جنہوں نے ان کے انعقاد میں مدد کی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی قوتیں بھی ان مذاکرات کی حمایت کررہی ہیں۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حصے لینے والے ممالک کی حیثیت صرف سہولت کاروں ہی کی نہیں، اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی ڈیل ہوجاتی ہے تو یہ ضامن کا کردار بھی ادا کریں گے۔
افغان وفد کی سربراہی ڈپٹی وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی کررہے ہیں جبکہ دیگر اہم رہنماوں میں صدر اشرف غنی کے مشیر حاجی دین محمد اور افغان چیف ایگزیکیٹیو عبداللہ عبداللہ صاحب کے نمائندے محمد نطیقی شامل ہیں۔
دوسری جانب افغان گروپ کی سربراہی افغان دور میں اٹارنی جنرل رہ چکے اور قندھار سے تعلق رکھنے والے ملا عباس کررہے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ وہ طالبان سربراہ ملا عمر اور طالبان شوریٰ کے اراکین کے کافی قریب ہیں۔
طالبان وفد کے شرکا کی تصدیق نہیں ہوسکی تاہم ایک ذریعے نے بتایا کہ اسےطالبان کے تمام حلقوں کی نمائندگی حاصل تھی۔
خیال رہے کہ کونسل کو جنگجوؤں کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
اشرف غنی کے نائب ترجمان سید ظفر ہاشمی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وفد کی سربراہی نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی کر رہے ہیں۔
ہاشمی نے بات چیت کا عمل کی طوالت، زیر بحث موضوعات اور مذاکرات میں طالبان کی شمولیت کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔
طالبان نے گزشتہ مہینے تسلیم کیا تھا کہ وہ ایک افغان وفد کے ساتھ ناروے میں غیر رسمی بات چیت کر رہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ مئی میں قطر میں ہونے والی ایسی ہی غیر رسمی ملاقاتوں میں طالبان وفد نے عہد کیا تھا کہ وہ خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کے حق کی حمایت کریں گے۔
خیال رہے کہ طالبان نے حکومت کے ساتھ بھرپور مذاکرات شروع کرنے سے پہلے غیر ملکی فوجوں کے افغانستان سے مکمل انخلا کی شرط عائد کی تھی۔
نیٹو نے دسمبر میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگی مشن ختم کر دیا تھا۔ تاہم، مقامی فورسزکی تربیت اور انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کیلئے کچھ غیر ملکی فوجی دستے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔
Leave a Reply