حکام کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ فاٹا میں مقیم اقلیتوں کو قبائلی عمائدین کا درجہ دیا گیا، تاکہ یہ برادریاں قبائلی معاشرے میں باضابطہ طور پر ضم ہوسکیں۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو ’لنگی بردار‘ کا درجہ دیا گیا ہے، ان میں آل فاٹا مائنریٹیزسوشل ویلفیئر آرگنائزیشن کے چیئرمین ولسن وزیر، جمرود چرچ کے نگران جیمس مائیکل اور سکھ برادری کے دونمائندے گرومیت سنگھ اور نرنجان سنگھ شامل ہیں۔
حکومت کے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے ولسن وزیر نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس اقدام سے مقامی باشندوں اور قبائلی علاقوں میں مقیم اقلیتی برادری کے درمیان امتیازات کا خاتمہ ہوگا۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل انتظامیہ کے قوانین کے تحت اقلیتی برادری کے چاروں لنگی بردار تمام سرکاری مراعات کے حقدار ہوں گے اور انہیں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ، ڈومیسائل اور پاسپورٹ سمیت تمام اہم قومی دستاویزات کی تصدیق کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔
ولسن وزیر نے کہا کہ پہلے اقلیتی برادری کے لوگ قومی دستاویزات کی تصدیق کے لیے مقامی قبائلی عمائدین سے رجوع کرتے تھے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے زیادہ تر کیسز میں قبائلی عمائدین یا تو ہماری دستاویز کی تصدیق سے انکار کردیا کرتے تھے، یا پھر اس کے لیے رشوت طلب کرتے تھے۔
ولسن وزیر نے کہا کہ اس نئے انتظام کے تحت اب کسی دشواری کے بغیر اس طرح کی دستاویزات کے حصول میں سہولت حاصل ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے چار مہینے پہلے اصولی بنیادوں پر فاٹا کی تمام اقلیتی برادریوں کا قبائلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا، اور فاٹا سیکریٹیریٹ اقلیتوں کے لیے نیا طریقہ کار وضع کررہا ہے۔
ولسن وزیر نے بتایا کہ ان کی تنظیم اب دیگر قبائلی ایجنسیوں میں اقلیتی رہنماؤں کے لیے ’لنگی بردار‘ کا درجہ حاصل کرنے کے حوالے سے پولیٹیکل انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔
آل فاٹا کرسچین آرگنائزیشن کے چیئرمین ارشد مسیح نے اقلیتوں کے نمائندوں کو نیا درجہ دیے جانے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اقلیتوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجراء سے انہیں اپنی ذاتی ملکیت رکھنے اور فاٹا میں سرکاری ملازمتوں کے حصول کا بھی اختیار مل جائے گا۔
Leave a Reply