امریکا میں روزہ رکھنے کا آغاز کیسے ہوا؟

پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکا کے لاکھوں مسلمان بھی روزے رکھ رہے ہوں گے۔ 2016ء کے ایک جائزے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا میں مسلمانوں کی تعداد 33 لاکھ بتائی گئی۔ بعض اندازوں کے مطابق مسلمانوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا میں اسلام تیسرا بڑا مذہب ہے اور یہ بھی کہ وہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد میں آمد تاخیر سے ہوئی۔ کہا یہی جاتا ہے کہ کولمبس نے امریکا دریافت کیا۔ متعدد محققین اس سے اختلاف کرتے ہیں لیکن اس امر سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کولمبس کے براعظم امریکا پہنچنے کے بعد یورپیوں کے لیے اس سرزمین کے در وا ہو گئے۔ نووارد مسیحی تھے۔ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان عرب کولمبس کی آمد سے قبل براعظم امریکا تک پہنچ چکے تھے۔ اس دعوے کی بنیاد کولمبس سے قبل مسلمان عربوں کے تیار کردہ نقشے اور ان کی بحری سفرکی صلاحیت ہے۔ تاہم غالب خیال یہ ہے کہ ان کی آمد مستقل قیام کی صورت اختیار نہ کر سکی اور نہ ہی وہ یورپیوں کی طرح قابض کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا میں بڑی تعداد میں سب سے پہلے مسلمانوں کی آمد کیسے ہوئی کیونکہ ان کی آمد کے ساتھ ہی اجتماعی سطح پر روزہ رکھنے آغاز ہوا ہو گا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے مسلمان ویزہ لگوا کر امریکا پہنچے اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق شہریت حاصل کی۔ جی نہیں! مسلمانوں کی امریکا میں بڑی تعداد میں آمد سب سے پہلے بطور غلام ہوئی۔ غلام بنائے جانے والوں میں اپنے وطن کے معززین بھی شامل تھے۔ مثلاً عبدالرحمان ابراہیم اب سوری مغربی افریقا کا ایک شہزادہ تھا۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے 1861ء تک جب امریکا خانہ جنگی کی زد میں آیا، امریکا کے جنوبی حصے نے غلام داری کو پلتے بڑھتے دیکھا۔ یوں تو غلامی کو عہد وسطیٰ اور دور قدیم کی یادگار سمجھا جاتا ہے لیکن تمدن کے معماروں کی اینٹوں میں مقامی انڈینز کا خون اور غلاموں کا پسینہ شامل ہے۔ جنوب میں ہونے والی کاشت کے لیے مغربی افریقا سے سیاہ فاموں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر لایا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق کاشت کاری کرنے والے چھ سے 12 لاکھ افریقیوں میں 15 سے 30 فیصد مسلمان تھے کیونکہ انہیں مغربی افریقا کے جن علاقوں سے پکڑا گیا تھا وہاں مسلمان خاصی تعداد میں موجود تھے۔ ایک اندازے کے مطابق جن علاقوں سے غلام بنا کر آزاد انسانوں، جن میں مرد و زن دونوں شامل تھے کو لایا گیا تھا ان میں سے نصف میں اسلام اقلیتی اور نصف میں اکثریتی مذہب تھا۔ افریقہ کے ان آزاد انسانوں کو جب بطور غلام لایا جاتا تو انہیں بالکل نئی صورت حال کا سامنا ہوتا۔ غلاموں کے لیے علیحدہ قانون ہوا کرتے ہیں۔ غلام سے سب سے بڑا خطرہ بغاوت کا ہوتا ہے کیونکہ آزادی انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اسی لیے کاشت کاری کرنے والے غلاموں کو اکٹھے ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس پابندی کا اثر مسلمان غلاموں کی عبادات بالخصوص نماز اور روزے پر پڑتا تھا۔ ماہ رمضان کے دوران مسلمان مل کر سحر وافطار کا اہتمام کرنا پسند کرتے ہیں۔ دورانِ سفر روزہ نہ رکھنے کی اجازت اسلام میں دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود امریکا لائے جانے والے مسلمان غلاموں نے روزے کو ترک نہیں کیا۔ ان کے ہاں عام طور پر سحری اور افطار اجتماعی شکل میں ہوا کرتی تھی۔ باوجود اس کے کہ اجتماع کی ممانعت تھی۔ ’ورجینیا سلیو کوڈ‘ کے مطابق پانچ غلاموں کا اکٹھا ہونا غیر قانونی تھا۔ ان قوانین کی خلاف ورزی پر انتہائی سخت سزائیں دی جاتی تھیں جس میں بے انتہا تشدد بھی شامل ہوتا تھا۔ عبادات کے حوالے سے ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں آقاؤں نے تعاون کیا اور اس مقصد کے لیے علیحدہ جگہ مخصوص کی۔ امریکا میں غلامی کے غیر منصفانہ نظام کے خلاف طویل لڑائی لڑی گئی اور بالآخر اس کا خاتمہ ہو گیا۔ آج وہاں کے آئین میں تمام انسانوں کو بلا تفریق مذہب برابر حیثیت حاصل ہے۔ آج وہاں ماہ رمضان اس طرح قطعاً نہیں جس طرح غلامی کے دور میں تھا اور امریکا میں موجود زیادہ تر مسلمانوں کا تعلق افریقا کی بجائے جنوبی ایشیا سے ہے جو آزاد انسان کی حیثیت سے امریکا میں داخل ہوئے۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.