بابر نے برصغیر کو کیسا پایا

پندرہویں صدی کے نصف میں دہلی کی مرکزیت ختم ہو چکی تھی ۔ دکن ، گجرات ، مالوہ ، جونپور اور بنگال میں آزاد بادشاہتیں قائم ہو چکی تھیں۔ پنجاب پر بہلول خاں لودھی حکمران تھا ۔ خاندیش، سندھ اور ملتان پر بھی آزاد حکمرانوں کا قبضہ تھا۔ دہلی کی ’’سلطنت‘‘شہر کی فصیل سے بارہ میل دور تک سمٹ چکی تھی۔ بابر کے آنے سے پیشتر دہلی میں جتنے حکمران خاندان بدلتے رہے سب کے سب پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ پنجاب کا گورنر دہلی پر قابض ہو کر نئے خاندان کی بنیاد ڈالتا رہا۔ البتہ شیر شاہ سوری اس سے مستثنیٰ ہے۔ بہلول خاں لودھی کی وفات کے بعد امیروں نے اس کے بیٹے سکندر لودھی کو بادشاہ منتخب کیا۔ اس کے عہد میں جو نپور کے زمینداروں نے بغاوت کی۔ لیکن سکندر لودھی نے اسے آسانی سے فرو کر دیا۔ اس نے بہار کو اپنی سلطنت میںشامل کیا۔سکندر لودھی نے نہ صرف اپنی فوجی طاقت کو بڑھایا۔ بلکہ اس نے سول نظم ونسق کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ کی ۔ ایک مہم پر روانہ ہوتے وقت اس کی ملاقات ایک قلندر سے ہوئی ۔ قلندر نے سکندر لودھی کی فتح کے لئے دعا کی اس پر اُس نے قلندر سے کہاکہ وہ اس شخص کی فتح کی دعا کرے جو اپنی رعایا سے بہتر سلوک کرتا ہے۔ اس نے فوجی افسروں کی تعلیم کے لئے سکول جاری کیا۔ اس نے خبررسانی کا محکمہ قائم کیا۔ جس کی بناء پر اُسے ہر روز اپنی سلطنت کے شہروں کے حالات کا پتہ چل جاتا تھا۔سکندر لودھی شاعراور علم دوست تھا۔ اس نے تقریباً اٹھائیس سال حکومت کی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ابراہیم لودھی تخت پر بیٹھا۔ اس نے افغان سرداروں کو عوام میں تبدیل کرنا چاہا۔ افغان سرداروں نے ابراہیم لودھی کے خلاف تخت دہلی کا ایک اور دعویدار کھڑا کر دیا۔ لودھی نے جلال خاں کو شکست دی۔ اس شکست کے بعد افغان سرداروں نے ایک اور بغاوت کی۔ اس بغاوت میں بھی شاہ پسندوں کو فتح حاصل ہوئی۔ اب ابراہیم لودھی نے افغان سرداروں کے ساتھ سختی کا سلوک شروع کیا۔ پنجاب کے گورنر دولت خاں لودھی نے کابل کے بادشاہ بابر کوہندوستان پر قبضہ کرنے کی دعوت دی۔ ابراہیم لودھی کے بھائی علاؤ الدین نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دہلی پر دھا وابول دیا۔ لیکن شاہی فوجی نے اسے شکست دے کر پنجاب کی طرف بھگا دیا۔ تھوڑی مدت بعد بابر نے لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں مغلوں کو سلطنت قائم کی یہ سلطنت کسی نہ کسی صورت میں انیسویں صدی کے وسط تک قائم رہی۔ چنگیز اور تیمور کی نسبت بابر کی شخصیت بہت زیادہ جاذب تھی۔ وہ تیمور اور اکبر کے سلسلہ کی درمیانی کڑی تھا۔ وہ اس سال پیدا ہوا جب تحریک اصلاح کا بانی لو تھر پیدا ہوا تھا۔ وہ اس سال تخت پر بیٹھا جس سال چارلس ہشتم نے اٹلی پر حملہ کیا تھا۔ اس کی زندگی تقدیر اور تدبر کی ایک طولانی جنگ تھی۔ اگر وہ دوپہر کو تخت پر بیٹھا تو رات کے وقت اسے سر چھپانے کے لئے جگہ نہ ملتی۔ بابر اور اُس کے ساتھی ننگے پائوں پھرتے رہے یہاں تک کہ اُن کے پائوں پہاڑوں اور چٹانوں کی روشنی سے بے پروا ہو گئے۔ وہ خود لکھتا ہے کہ ’’مصیبت زدہ انسان کو کوئی یاد نہیں کرتا۔ ایک جلاوطن کا دل مسرتوں سے کبھی لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ اس جلاوطنی میں میرا دل خوش نہیں ہے۔ جلاوطن خواہ وہ کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو اس سے خوشی چھین لی جاتی ہے۔‘‘ زندگی کے مختلف نشیب وفراز دیکھنے کے بعد تخت کابل نے اس کا خیر مقدم کیا۔ کابل کی فتح کے بعد اس نے ہندوستان پر حملے کئے آخری حملے میں اس نے لودھی کو شکست دی۔ لودھی کو شکست دینے کے بعد بابر صرف چار سال زندہ رہا۔ یہ مدت بھی لڑائی جھگڑوں میں صرف ہوئی۔ اس نے آگرہ کو اپنی راجدھانی بنانے کے لئے قسطنطنیہ (استنبول) سے ماہرین فن طلب کئے۔ اس کے ہم عصر عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے اپنے بہت سے معماروں کو ہندوستان میں بھیج دیا۔ بابر نے اپنے سوانح حیات کو ’’تزکِ بابری‘‘ میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں نہ صرف بابر اور اس کے ساتھیوں کی سیرت کا تذکرہ ہے۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی تکلیف کے عالم میں بھی بابر گلزاروں اور سبزہ زاروں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اسے پھولوں سے بہت پیار تھا۔ بابر اپنی تزک میں لکھتا ہے کہ ہندوستان ایک وسیع ملک ہے۔ یہ ملک دنیا کے دوسرے ملکوں سے بہت مختلف ہے۔ اس ملک کے پہاڑ اور دریا، جنگل اور میدان سب کے سب مختلف قسم کے ہیں۔ یہاں کے سانپ اور مینڈک بھی دوسری قسم کے ہیں۔ ہندوستان کے مینڈک پانی کی سطح پر چھ سات گز دوڑ سکتے ہیں۔ ہندوستان کے لوگ مجلسی زندگی سے محروم ہیں۔ یہاں کے لوگ خوبصورت نہیں ہیں۔ فن تعمیر سے وہ بالکل بے بہرہ ہیں۔ ان میں انسانی ہمددری نام کو نہیں۔ ہندوستان میں نہ اچھے گھوڑے ہیں اور نہ اچھے تربوز، نہ برف ہے نہ ٹھنڈا پانی۔ ان کے بازاروں میں کھانے کی دکانیں نہیں ہیں۔ نہ حمام ہیں اور نہ کالج ۔بابر کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا،ہمایوں تخت پر بیٹھا

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.