سرسید احمد خان کا سفر انگلستان

سرسید کو مسئلہ تعلیم میں ابتداہی سے دلچسپی تھی، انہوں نے محسوس کر لیا کہ اس وقت تک قوم کی کسی قسم کی اصلاح ناممکن ہے جب تک جہالت کو دور نہ کیاجائے، وہ خود علوم مشرقی کے ماہر تھے اورمشرقی طرز تعلیم کے متعلق مکمل معلومات رکھتے تھے، مگر مغربی نظام تعلیم کے متعلق ان کی معلومات بہت محدود تھیں۔ خود ہندوستان میں ایسے سرکاری یا غیر سرکاری تعلیمی ادارے قائم نہیں ہوئے تھے، جن سے سرسید مغربی طرز تعلیم کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے ۔ اس لیے سرسید نے یہ طے کرلیا کہ وہ خودانگلستان جا کر انگریزی تعلیمی اداروں کا معائنہ کر کے مغربی علوم کے متعلق براہِ راست معلومات حاصل کریں اوران معلومات سے فائدہ حاصل کر کے اپنی قوم کے سامنے ایک مفید تعلیمی پروگرام پیش کریں۔ اسی زمانے میں ان کے فرزند سید محمود کو میٹرک کی شاندار کامیابی کے صلے میں حکومت کی طرف سے انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظیفہ ملا۔ ا سطرح گویا سرسیدکو، جوانگریزی زبان سے نابلد تھے، ایک ترجمان اوررفیق سفر مل گیا۔ بے شمار دقتوں کے باوجود سرسید اس سفر کے لیے تیار ہوگئے ۔ انہوں نے جو درخواست رخصت پیش کی اس کے حسب ذیل فقرے ان کے مقصد سفر پر بہت اچھی طرح روشنی ڈالتے ہیں۔ ’’یہ بات بخوبی میرے ذہن نشین ہے کہ ہندوستان کی فلاح وبہبود کو کامل ترقی دینے اورگورنمنٹ انگریزی کے مطالب کو، جس کی ملازمت کا فخر مجھے حاصل ہے، بخوبی استحکام اور پائیداری بخشنے کے واسطے اسکے سوا اورکسی امر کی ضرورت نہیں ہے کہ اہل یورپ اور ہندوستان کے درمیان ربط و ضبط کو ترقی دی جائے ، پس اس مقصد کی تکمیل کے واسطے ہندوستانیوں کو میری رائے میں یورپ کے سفر کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ مغربی ملکوں کی شائستگی کے عجیب و غریب نتیجوں اور ان کی ترقی کا بچشم خود مشاہدہ کریں اور اس بات کا اندازہ کرسکیں کہ انگلستان کے لوگ کیسے داتا ، دولتمند اورطاقتور ہیں اور ان مفید اور عمدہ باتوں کو ہندوستان کی بھلائی کے واسطے سیکھیں جواس امر کے نتیجے ہیں کہ تجارت کے باب میں انگلستان کے باشندے کیسے مستعد ہیں اور کارخانوں، کاشتکاری، شفاخانوں، خیرات اورشہروں کی صفائی اور اس دولت اور علم سے روز بروز زیادہ کام لیا جاتا ہے‘‘۔ سرسید کا اس سفر سے ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ مشہور متعصب عیسائی مصنف سرولیم میور کی حضرت محمدﷺ پر لکھی گئی کتاب کاجواب لکھنا چاہتے تھے، ہندوستان میں ایسی کتاب لکھنے کے لیے کافی مواد موجود نہ تھا ۔ چنانچہ وہ لندن جا کر برٹش میوزیم کی لائبریری میں دن بھر رہتے تھے اور سر ولیم کے جواب میں اپنی کتاب کی تالیف و تصنیف میں مشغول رہتے تھے ۔ انہوں نے جو خط سید مہدی علی (نواب محسن الملک) کے نام لکھا تھا وہ ان کے دینی جوش وخروش اوران کے ارادے کی پختگی کا بین ثبوت ہے ۔ سرسید کی ان مسلسل اوران تھک کوششوں کا نتیجہ ’’خطبات احمدیہ‘‘ کی شکل میں شائع ہوا۔ اس کتاب کی طباعت اور اشاعت کی خاطر سرسید کو عظیم الشان قربانیاں دینا پڑیں ، انہوں نے اس کے لیے اپنا مال و اسباب یہاں تک کہ دلی میں خانہ داری کے ظروف تک فروخت کر ڈالے ، لیکن انہیں یہ منظور تھا کیونکہ محبت کے راستے میں جومشکلات پیش آتی ہیں وہ شہد سے زیادہ شیریں ہوئی ہیں اور انہیں اسلام اور رسول اللہ سے عشق تھا ۔ سرسید کو دوران قیام لندن میں متعدد علمی و سیاسی اعزازات حاصل ہوئے ۔ انیتھم کلب نے ان کو اعزازی رکنیت پیش کی، لارڈ لارنس سابق گورنر جنرل ہندوستان کی سفارش پر ان کو سی ایس آئی کا خطاب ملا۔ ملکہ اور شہزادہ ولی عہد نے ان کو شرف ملاقات بخشا۔ باوجود ان گوناگوں مصروفیات کے سرسید نے اپنے سفر کے تعلیمی مقاصد کو فراموش نہیں کیا، انہوں نے مختلف درسگاہوں کا بغور مطالعہ کیا اوراپنے مطالعہ کے نتائج سوسائٹی کے اخبار انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع کراتے رہے، نواب محسن الملک کے نام ان کا حسب ذیل خط ان کی تعلیمی دلچسپیوں اور انہماک کا صحیح آئینہ ہے ۔ ’’ ایسے ایسے مدرسوں سے کچھ فائدہ نہیں ہے، افسوس کہ مسلمان ہندوستان کے ڈوبے جاتے ہیں اورکوئی ان کو نکالنے والا نہیں ہے ، ہائے افسوس امرت تھوکتے ہیں اور زہر نگلتے ہیں ، ہائے افسوس ہاتھ پکڑنے والے کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں ۔ یقین جانو کہ مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آگیا ہے ، اب ڈوبنے میں بہت ہی کم فاصلہ باقی ہے ، اگر تم یہاں آتے تودیکھتے کہ تربیت کس طرح ہوتی ہے ، اور تعلیم اولاد کا کیا طریقہ ہے اور علم کیونکر آتا ہے ۔ میں انشاء اللہ یہاں سے واپس آکر سب کچھ کہوں گا اور کروں گا…‘‘ سرسید نے اپنے دوران قیام یورپ ہی میں ایک پمفلٹ لکھا اور ہندوستان کی مروجہ تعلیم کی خامیاں ظاہر کیں ، ان کی رائے میں ہندوستان کے تعلیمی ادارے طلباء کی سیرت کی تشکیل میں کوئی اہم حصہ نہ لیتے تھے ، ان کا مقصد اتنا ہی تھا کہ وہ لارڈ میکالے کے بقول انگریزی داں کلرک پیدا کریں ۔ یہ تعلیم انگلستان کی تعلیم کی ایک نہایت ہی بھونڈی نقل تھی اور ملک کی تمدنی اور سماجی ضروریات کی کفیل نہ ہوسکتی تھی ۔ ایک مسلمان طالب علم کے پاس اس کے علاوہ چارہ نہ تھا کہ یا تو وہ تعلیم حاصل کر کے سماج کی نقل و حرکت میں ایک عضو معطل ہو کر رہ جائے ، یا انگریزی تعلیم حاصل کر کے اپنی قومی انفرادیت کو فناکر دے۔ ان خیالات کے ماتحت سرسید نے ایک تحریر بعنوان ’’التماس بخدمت اہل اسلام احکام ہندوارباب ترقی و تعلیم مسلمانان ہند‘‘ شائع کی اورلندن سے اس کی کاپیاں نواب محسن الملک کے پاس تقسیم کرنے کے لیے بھیجیں، انہیں ان کو تقسیم کرنے کی ہمت نہ پڑی اور سرسید نے اپنی واپسی پر خود ہی اس رسالے کو تقسیم کیا، یہاں سے ان کی تعلیمی جدوجہد کا حقیقی آغاز ہوتاہے ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.