طبیعیات کے راز جانے والا سائنسدان , مائیکل فراڈے

یہ برقیات کا دور ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے دور کو خلائی اوربعض اوقات ایٹمی دور بھی کہا جاتا ہے۔ خلائی سفر اور ایٹمی ہتھیاروں کی چاہے کسی قدرافادیت ہو، ان کا ہماری روز مرہ زندگیوں پر اثر اسی نسبت سے نہیں پڑتا۔ دوسری طرف ہم مسلسل برقیات کااستعمال کررہے ہیں ۔ فی الحقیقت یہی کہنا بہتر معلوم ہوتاہے کہ ٹیکنالوجی کا عنصر اس حد تک جدید دنیا میں سرایت نہیں کر پایا ، جتنا برقیات کے استعمال نے کیا۔ برقیات پر قابو پانے میں بہت سے افراد کی مساعی کا دخل ہے ۔ چارلس آگسٹین ڈی کولمب، کائونٹ الیسینڈ رو ولٹا، ہائز کرسچن لور سٹڈ اور آندرے ماریا ایمپیئر وغیرہ ان میں چند اہم نام ہیں ۔ لیکن ان سب سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل دو برطانوی سائنس دان ہیں ۔ وہ ہیں مائیکل فراڈے اور جیمز کلارک میکس ویل ۔ مائیکل فراڈے انگلستان میں نیونگٹن میں1791 ء میں پیدا ہوا ۔ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ وہ خود اپنی کمائی پر پڑھا ۔ چودہ برس کی عمر میں ایک جلد ساز اور کتب فروش کے پاس ملازم ہوا جہاں اسے بے تحاشا پڑھنے کا موقع ملا ۔ بیس برس کی عمر میں اسے معروف برطانوی سائنس دان ہفری ڈیوی کے لیکچر سننے کااتفاق ہوا ۔ وہ اس کا گرویدہ ہوگیا ۔ اس نے ڈیوی کو خط لکھا اورآخر اس کے معاون کے طور پر ملازم ہوگیا ۔ چند سالوں ہی میں فراڈے نے اپنے طور پر اہم دریافتیں کیں ۔ ہر چند کہ اسے ریاضیات میں اچھی جان کاری نہیں تھی لیکن ایک تجرباتی طبیعیات دان کے طورپر اس کی اہلیت غیر معمولی تھی ۔ برقیات کے شعبے میں فراڈے نے اپنی پہلی اہم ایجاد 1821ء میں کی۔ دو برس قبل اور سسٹڈ نے یہ معلوم کرلیا تھا کہ ایک معمولی مقناطیسی قطب نما کی سوئی مڑ جاتی ہے اگر اس کے قریب کسی تار میں سے برقی کرنٹ گزرے۔ اس سے فراڈے اس نتیجہ پرپہنچا کہ اگر مقناطیس کو ایک جگہ جما کر رکھ دیا جائے تو اس طور اس تار کوگرد پھرایا جاسکتا ہے۔ وہ اس اصول پر کام کرتا رہا اورآخر ایک انوکھی ایجاد کرنے میں کامیاب ہوا جس میں ایک تار، جب تک کہ اس میں سے برقی لہر دوڑتی رہتی، مقناطیس کے گرد متاثر حلقے میں مسلسل گھومتی رہتی تھی ۔ درحقیقت فراڈے نے جوشے بنائی تھی وہ پہلی برقی موٹر تھی۔ یہ پہلا آلہ تھا جس میں برقی لہر کو ایک ٹھوس شے کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیاگیا۔ فراڈے کی ایجاد آج دنیا میں موجود تمام برقی موٹروں کے مبداء کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا۔ تاہم اس کا عملی اطلاق محدود تھا ۔ فراڈے کویقین تھا کہ کوئی ایسا طریقہ ضرور موجود ہے، جس سے مقناطیسیت کو برقی لہر پیدا کرنے کے لیے استعمال کیاجاسکتا تھا۔ وہ ایسے طریقہ کار کی تلاش میں سرگرداں رہا ۔ 1831ء میں فراڈے نے دریافت کیا کہ اگر ایک مقناطیس کو دو متوازی تاروں کے بیچ خلا میں سے گزارا جائے تو جب تک برقی لہر وہاں سے گزرتی رہے گی، مقناطیس بھی متحرک رہے گا۔ اس عمل کو برقی مقناطیسی امالہ (Induction) کہتے ہیں ۔ اس قانون کو فراڈے کا قانون کہا جاتا ہے۔ اسے فراڈے کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے ۔ دو وجوہات کی بناء پر یہ ایک یادگار دریافت تھی ۔ اول برقی مقناطیسیت سے متعلق ہمارے نظریاتی ادراک میں فراڈے کا قانون بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ دوئم برقی مقناطیسی امالہ کو مسلسل برقی لہریں پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جیسا کہ فراڈے نے خود ہی پہلا برقیاتی آلہ(Dynamo) تیار کر کے ثابت کیا ۔ اگرچہ جدید برقیاتی جنریٹر جوہمارے شہروں اور کارخانوں کو برقی توانائی مہیا کرتا ہے، فراڈے کے آلے سے کہیں زیادہ نفیس شے ہے ۔ تاہم ان کی بنیاد وہی برقی مقناطیسی امالہ بنتی ہے ۔ فراڈے نے کیمیا کے شعبے میں بھی گراں قدر اضافے کیے ۔ اس نے گیسوں کو مائع حالت میں ڈھالنے کا طریقہ کار دریافت کیا ۔ اس نے ’’بینزین‘‘(Benzene) سمیت متعدد کیمیائی عناصر دریافت کیے تاہم اس کا کہیں زیادہ اہم کام برقیاتی کیمیا کے حوالے سے ہے (جیسے برقی لہروں کے کیمیاوی اثرات کا تجزیہ وغیرہ) ۔ فراڈے نے اپنے محتاط تجربات کی بنیاد پر برقی لہر کے ذریعے تحلیل کے دو اصول دریافت کیے ۔ جنہیں اس کے نام سے ہی موسوم کیا جاتا ہے اور جنہوں نے برقیاتی کیمیائی بنیادیں استوار کیں ۔ یہ فراڈے ہی تھا، جس نے طبیعیات میں طاقت کے مقناطیسی خطوط اورطاقت کے برقیاتی خطوط جیسے تصورات کومتعارف کروایا ۔ مقناطیس کی بجائے اس کے مقناطیسی حلقے یا دائرہ اثر کی افادیت پر اصرار کرتے ہوئے اس نے جدید طبیعیات میں بیش بہا پیش رفت کی راہ کو ہموار کیا ۔ فراڈے نے یہ بھی دریافت کیا کہ اگر تقطیب شدہ روشنی کو ایک مقناطیسی حلقے میں سے گزارہ جائے تو اس کی سمت بدل جائے گی ۔ یہ دریافت بھی اہم تھی کیونکہ یہ اس حقیقت کی طرف اولین اشارہ تھا کہ روشنی اور مقناطیسیت کے درمیان تعلق موجود ہے ۔ فراڈے نہ صرف ذہین تھا بلکہ چالاک بھی تھا ۔ وہ سائنس کے مضمون میں ایک اچھا خطیب بھی تھا تاہم شہرت ، دولت اور اعزازات کے متعلق اس کا رویہ بڑا عاجزانہ اور بے نیازانہ تھا ۔ اس نے نواب بننے کے موقع کو مسترد کردیا اور ’’برٹش رائل سوسائٹی‘‘ کی صدارت کے عہدہ کی پیشکش کو بھی ٹھکرایا ۔ اس کی شادی شدہ طویل زندگی بڑی خوشگوار تھی تاہم وہ لاولد رہا ۔ وہ 1867 ء میں لندن کے مضافات میں فوت ہوا ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.