شاید ہم ان کی قدر نہ کر سکے ۔ وہ پاکستان میں پیدا ہوئیں مگر دنیا نے انہیں درجنوں اعزازات سے نوازا ۔ ذراغور کیجیے! دنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم ہونے کے علاوہ کتنے ایوارڈ بی بی کو حاصل ہوئے ۔ 1۔ گینزبک آف ورلڈ ریکارڈز میں 1996ء میں دنیا کی 50 عظیم خواتین میں شامل ۔ 2۔ انسانی حقوق کی پاسداری پر برنو کرسکی ایوارڈ 1998 ء ، 3۔ ریڈ کلف فی بیٹا ایوارڈ 1989ء 4۔ مراکش کا سب سے بڑا سول ایوارڈ 1989ء۔ 5۔ یو نی فیم کی طرف سے نوئل فائونڈیشن ایوارڈ 1990ء۔ 6۔ گوکوشیون اعزازی ایوارڈ ٹوکیو 1996ء۔ 7۔ بوسینا کا صدارتی ایوارڈ 1996ء۔ 8۔ لاس اینجلس شہر کی اعزازی چابی 1995ء ۔ 9۔ امریکہ کی طرف سے انٹرنیشنل سائنس میڈل 1995ء 10۔ لاس اینجلس کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کی طرف سے میڈل 1995ء 11۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر آف لاء کی اعزازی ڈگری 1995ء۔ 12۔ فلپائن کی یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 1996ء 13۔ ٹوکیو یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری 1996ء 14۔ کرغستان کی سٹیٹ نیشنل یونین کی طرف سے اعزازی پروفیسر کا عہدہ 1995ء 15۔ قازقستان کی یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر کا عہدہ 1995ء 16۔ گوکوشیون ٹوکیو ایلومینائی ایسوسی ایشن کی اعزازی ممبر شپ1996ء 17۔ امریکن بائیو گرافیکل کی طرف سے ملینئیم ایوارڈ 1996ء 18۔ امریکن اکیڈمی ایوارڈ 2000 ، ابھی نوجوانی اور زمانہ طالب علمی کی بے فکری کی عمر تھی کہ ان سے باپ چھین لیا گیا ۔ بوڑھی ماں کے ساتھ جیلوں میں ڈالا گیا ۔ جوان بھائیوں کی پہلے جلا وطنی میں جدائی برداشت کی پھر وہ دونوں بھی چھین لیے گئے ۔ ابھی ایک بھائی کا سوگ بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ حکومت چھین لی اور خاوند کو قید کرلیا گیا ۔ پھر تو جیسے مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ خاوند جیل میں اور خود بچوں کیلئے غریب الوطن ، ایک طرف بچوں کی ذمہ داری، ان کی تعلیم و تربیت ، بوڑھی اور بیمار والدہ کی تیمار داری اور دوسری طرف خاوند کی قید ، اس کے باوجود عزم و ہمت اور حوصلہ و بہادری کی ایسی چٹان بن کر حالات کا مقابلہ کیا کہ وقت کے آمر نے بھی مفاہمت میں ہی عافیت سمجھی ۔ پہلی بار وہ 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی اتریں تو چاہنے والوں اور جیالوں کا ایک سیلاب امڈ آیا اور ابھی محترمہ راستے میں ہی تھیں تو پہلے سے نصب شدہ بم پھٹ گیا ۔ وہ خود تو ٹرک کے محفوظ حصے میں ہونے کی وجہ سے بچ گئیں مگر بڑی تعداد میں جیالے اپنی قائد پر قربان ہوگئے ، متعدد عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے ۔ اس اندوہناک واقعہ نے بھی دکھوں کی پلی بی بی کو خوفزدہ نہیں کیا بلکہ وہ نئے حوصلہ اور جذبے سے عوام کو حقوق دلانے پر کمربستہ ہوگئیں ۔ وہ اپنا صدمہ بھول کر اور سکیورٹی کے خدشات کو نظر انداز کرکے میدان میں نکل آئیں اور پھر دشمن نے دوسرا وار راولپنڈی کے لیاقت باغ میں کیا ۔ اس بار دشمنوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ پہلے مبینہ طور پر ایک ماہر نشانہ باز نے گولی ماری اور پھر خود کش دھماکہ کرکے شہید کردیا ۔ محترمہ کا قتل ذاتی دشمنی یا انفرادی عمل کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ جمہوریت دشمن قوتوں کی سازش تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو جب پیدا ہوئیں تو ذوالفقار علی بھٹو ملک سے باہر تھے ۔
Leave a Reply