کیا ڈو مور کے امریکی تقاضے پاکستان پورے کر سکے گا؟

امریکہ کی جانب سے افغانستان میں حملوں میں ملوث دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کریک ڈاؤن سمیت ڈرون حملوں میں اضافہ اور پاکستان کے لئے امداد کی تبدیلی یا اس کے روکے جانے کے امکانات اور خدشات ظاہر ہو رہے ہیں حقیقت حال کیا ہے پاکستان کا جرم کیا اور اس سے ڈومور کے تقاضے کیونکر ہیں ۔ دو مشاہدات اور سوالات ہیں جو ان خطرات اور خدشات کے پیش نظر سامنے آئے ہیں لیکن خود امریکہ اپنی پالیسی کے حوالے سے کلیئر نظر نہیں آ رہا کہ کیا وہ واقعتاً افغانستان میں امن چاہتا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استحکام چاہتا ہے یا وہ اس خطے میں اپنے رعب و دبدبہ کے لئے افغان سرزمین کو استعمال میں رکھتا ہے اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ آج پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی جس لعنت کے سدباب کے لئے ہماری حکومت اور سکیورٹی ادارے سرگرم نظر آ رہے ہیں یہ لعنت خود امریکہ پر بھی مسلط ہوئی اور یہ افغانستان پر امریکی حملے کا ہی کیا دھرا ہے جو ہمیں بھگتنا پڑا لیکن جو کہا جاتا ہے کہ دیر آید درست آید پاکستانی ریاست کو احساس ہوا تو ہم نے اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کیا اور پھر ایک معرکہ کے طور پر دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا شروع کیا گیا اور ہر ممکن حد تک ہم نے اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کیا اور دہشت گردوں کی آمد کا سلسلہ روکنے کے لئے سرحد پر باڑ لگانے کے اقدامات شروع کئے. یکایک امریکہ کی جانب سے ڈومور کے تقاضے اور یہ کہنا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے بظاہر لگتا ہے کہ مسئلہ دہشت گردی نہیں کچھ اور ہے اور دباؤ پاکستان پر ڈالنا مقصود ہے اگر امریکہ واقعتاً افغانستان میں امن چاہتا تو اس کے لئے پاکستان ہر طرح کے تعاون کیلئے تیار رہا اور اقدامات کئے مگر ایسے حالات میں افغانستان میں امن کے لئے دو اور غیر قوتیں سرگرم ہوئی ہیں چین اور روس کی جانب سے طالبان سے رابطوں نے امریکہ کو پریشان کر دیا اور وہ سمجھتا ہے کہ اس میں پاکستان کا کردار ہے لہٰذا اب پاکستان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ ماسکو کانفرنس میں طالبان کی شرکت سے امریکہ بوکھلا گیا ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ڈومور کے تقاضوں کے جواب میں پاکستان کو کیا کرنا ہے کیا پاکستان کی موجودہ حکومت دباؤ برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے یا ڈومور کے جواب میں نومور کہنے والی قیادت ہمارے پاس ہے ۔ افغانستان کے حوالے سے اس پالیسی اور اقدامات میں سکیورٹی اداروں کی اہمیت مسلمہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف مل کر افغانستان گئے امن کیلئے ممکنہ اقدامات اور تعاون کی یقین دہانی کرائی مگر نیک نیتی کا جواب بد نیتی سے ملا اور اس کی بڑی وجہ یہی رہی کہ افغانستان میں برسر اقتدار کٹھ پتلی اشرف غنی کی حکومت امریکہ اور بھارت کے دباؤ میں ہے اور افغانستان میں بدامنی کی فضا طاری رہنا خود امریکہ اور بھارت کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک حال ہی میں کابل میں ایک جنازے پر خودکش حملہ اور سفارتی علاقہ میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا تعلق ہے تو اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے اور طالبان اور داعش نے بھی اپنا مکروہ کردار شروع کر دیا لیکن افغان انتظامیہ نے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا اور امریکہ اس بنا پر پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈومور کے تقاضوں میں نومور کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے دنیا کو دکھا دیا جائے کہ ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں مگر اس پالیسی کو پاکستان کی کمزوری بنا کر اس پر دباؤ ڈالا جارہا ہے اور مقصد وہاں اپنے کردار کا جواز پیدا کرنا ہے. پاکستان نے افغانستان میں امن کے لئے بھی سنجیدگی دکھائی لیکن جواب نفی میں آیا جبکہ چند روز قبل پاکستان نے اعلیٰ سطح کا پارلیمانی وفد بھجوایا اور منتخب پارلیمنٹ میں جا کر امن کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا جبکہ جواب منفی ملا پھر عسکری لیڈرشپ نے بھی مل کر امن کے لئے اقدامات پر زور دیا اور کسی حد تک اتفاق کیا گیا لیکن پھر چمن پر حملہ کردیا گیا ۔ دوسری جانب پاک افغان دوستی اور امن کی دشمن قوت تھی جسے یہ سلسلہ راس نہ آیا اور امن کی کوشش کو پھر دبا دیا گیا لیکن پاکستان نے بھر پور ذمہ داری کا ثبوت دیا اور کہا کہ ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے اب بھی ایسی اطلاعات ہیں کہ پاکستان کے وفد کے جواب میں افغانستان کا پارلیمانی وفد بھی آ رہا ہے سیاسی سطح پر رابطے ہو رہے ہیں دونوں طرف امن کیلئے سیاسی اقدامات کی تحریک ہے مگر امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے ، امریکہ کی جانب سے مثبت جواب نہ آنے پر افغانستان میں امن کے لئے روس ،چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے درمیان رابطے استوار ہوئے تو امریکہ حرکت میں آ گیا لیکن امریکی طرز عمل اپنی جگہ ضرورت اس امر کی ہے کہ چین اور روس کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں کٹھ پتلی انتظامیہ کو افغانستان کی نمائندہ حکومت تسلیم کرتے ہوئے وہاں کی اعلیٰ طاقت کے مراکز کو منظور کیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ افغانستان میں امن اس خطے کی سیاسی ضرورت ہے افغانستان میں امن خطے میں ترقی و استحکام کے لئے ناگزیر ہے اور اس مقصد کے لئے جو بھی نیک نیت ہو اس کے ساتھ چلا جائے امریکہ افغانستان میں امن ہونے دیتا تو پاکستان پر دباؤ کے بجائے اس کے لئے کھڑا ہوتا حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ افغان سرزمین پر امن علاقائی فورسز خصوصاً چین ، روس اور پاکستان کی ضرورت ہے اور افغانستان کی سرزمین کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا امریکہ اور بھارت کی ترجیح ہے ۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ افغانستان کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں افغانستان کے زمینی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان اس وقت بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات کیلئے کھلونا بنا ہوا ہے اور ہر آنے والے دن میں دہشت گردی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے جب تک افغانستان کے اندر سے امن کے لئے تحریک شروع نہیں ہوتی اور افغان عوام مستقبل کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کرتے افغانستان میں امن کا خواب حقیقت نہیں بن سکتا ۔ دوسری جانب ابھی خبر یں آ رہی تھیں کہ امریکہ کی انتظامیہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے اور توقع کی جارہی تھی کہ شایدٹرمپ انتظامیہ افغانستان کے حوالے سے حقیقت پسندانہ کردار ادا کرتے ہوئے امن کے لئے پیشرفت کرے گی لیکن مذکورہ میڈیا رپورٹس کے بعد یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ ایک بار پھر افغانستان میں امن کیلئے اپنے اپنے تسلط اور علیحدگی کی جنگ شروع ہو گی جو افغانستان کے امن کے لئے خطرناک ثابت ہو گی اور افغانستان میں بدامنی اس خطے کو غیر مستحکم کر سکتی ہے

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.