دریائے سندھ سے بے وفائی

دریائے گلگت اور دریائے سندھ کے سنگم سے تھوڑا آگے شاہراہ قراقرم دریائے سندھ سے بے وفائی کر کے دریائے گلگت کے ہمراہ گلگت، ہنزہ اور خنجراب کی طرف فرار ہو جاتی ہے۔ ہم نے اس ہرجائی شاہراہ سے ہرجائی کی اور دائیں ہاتھ مڑ کر دریائے گلگت پر بنا ہوا عالم برج عبور کر کے سکردو روڈ پر آ گئے جو سکردو تک دریائے سندھ سے بغل گیر رہتی ہے۔ عالم برج کا نام “شمالی علاقہ جات” (گلگت بلتستان) کے لیے پاکستان کے پہلے پولیٹکل ایجنٹ سردار محمد عالم سے منسوب ہے۔سنا ہے کہ اب اسے فرہاد پل کا نام دے دیا گیا ہے۔ڈرائیور نے یہاں چند منٹ کے لئے بس روکی تو ہمیں عالم برج سے چند قدم کے فاصلے پر موجود سکردو روڈ کی اس “راک کارونگ” کی زیارت کا موقع نصیب ہوا جو “کھروستی” رسم الخط کی ایک انسکرپشن کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل کر چکی ہے۔ اس انسکرپشن (خطاطی کا نمونہ) میں پروفیسر فس مین (FUSSMAN ) نے ایک “دردا کنگ” یعنی درد قوم کے بادشاہ کا نام دریافت کر کے تاریخ کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے کیونکہ یہ دریافت گلگت کی مروّجہ تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ انسکرپشن عالمی ماہرین کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے اور بے شمار تحقیقی مقالہ جات کا موضوع بن کر تاریخ کے کئی پوشیدہ گوشے بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سکردو روڈ اپنے آغاز میں انتہائی معصوم اور بے ضرر نظر آتی ہے لیکن چند کلومیٹر بعد اس کا مزاج بدل جاتا ہے اور یہ قدم قدم پر اڑیل گھوڑے کی طرح ہونے لگتی ہے۔ شاہراہِ قراقرم کے بعد سکردو روڈ پر سفر کرنے والے خوفناک عیاشی سے لطف اندوز ہونے کے بعد دہشتناک ہولناکی کے پنجوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ دائیں جانب دنیا کی سب سے گہری گھاٹی کی تہہ میں دریائے سندھ اپنی پورے قہرکے ساتھ ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ آپ ٹھاٹھیں مارنے کا مطلب درست طور پر سمجھنا چاہتے ہیں تو۔۔ ’’سندھ کی محفل سجی ہے چلے آئیے‘‘ سکردو روڈ پر سفر کرنے سے پہلے میرے ذہن میں ’’ٹھاٹھیں مارنے‘‘ کا جو بھی تصوّر ہو، یہ نہیں تھا جو نظروں کے سامنے تھا۔ عالم برج سے سکردو تک لگ بھگ پونے دو سو کلومیٹر کے اس سفر میں کمزور دل حضرات تمام دعائیں اور خصوصاً آیت الکرسی کا ورد اتنی مرتبہ کر لیتے ہیں کہ جنم جنم کا کوٹہ پورا ہو جاتا ہے۔ عالم پل سے سکردو تک کا سفر وادیٔ روندو میں ہوتا ہے۔ وادیٔ روندو کسی زمانے میں خودمختار رہی ہے۔ اس وادی پر لونچھے خاندان کی حکومت تھی اور استک نامی قصبہ اس کا دارالحکومت تھا۔اس قصبے سے آنے والے تند و تیز استک نالے کے پل کے قریب ایک ریستوران پر ہم نے لنچ بریک کیا۔ریستوران کا “اوپن ایئر ڈائننگ لان ” نالے کے بالکل کنارے پر ہے۔ ہم لان میں بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے اور استک نالے کے پانی کے بے شمار چھینٹے ہمارے دامن سے چھیڑ چھاڑ کر کے بارش کا سماں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ نالا اتنا پر شور ہے کہ اس کے کنارے بیٹھ کر بات چیت کرنے کے لیے باقاعدہ چیخ چیخ کر بولنا پڑتا ہے۔ لان میں ایستادہ خوبانی کے درختوں پر انگور کی بیلیں اس انداز میں چڑھائی گئی ہیں کہ لان پر انگور کی بیلوں کی چھت وجود میں آ گئی ہے۔ انگوروں کی بیلوں کی اس معلق چھت کے نیچے استک نالے کی منہ زور لہروں کی رم جھم رم جھم پڑے پھوار، اور آپ کر رہے ہوں لنچ۔ فطرت اپنے زائرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے اور کیا اہتمام کر سکتی ہے؟ استک کے بعد وادیٔ روندو یا تحصیل روندو کے موجودہ صدر مقام روندو میں چائے سٹاپ ہوا۔روندو چھوٹا سا روایتی طرز کا گاؤں نما پہاڑی شہر ہے جو جدید تہذیب کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ ہے۔ تاریخ نویسوں کو وادیٔ روندو اور اس کے باشندوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں لکھے گئے شگر نامہ کے مطابق : ’’ یہ ملک قبر کی طرح تنگ ہے اور یہاں ڈھال برابر سطح زمین بھی ہموار نہیں۔اس کے باشندے چو پایوں کی طرح بے عقل ہیں جو بدکاری اور خواہش نفس کو مقصد زندگی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک علم و ہنر اور آداب و اخلاق کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.