Breaking News

وادیٔ سوات تاریخ کے آئینے میں

وادیٔ سوات اپنی طری خوب صورتی، دل کشی اور رعنائی کی وجہ سے بِلا شبہ پاکستان کا ایک حسین ترین خِطہ ہے۔ اس کے قدرتی مناظر، شفاف ندیاں، طلسماتی جھیلیں، بلند آبشاریں، پر شور دریا اور با رونق میدانی علاقے ہر شخص کا دِل موہ لیتے ہیں۔ سوات کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس خط ارضی کا ذکر قدیم ترین کتابوں میں بھی نظر آتا ہے۔ قدیم کتب میں اسے اودیانہ کے نام سے پکارا گیا ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں باغ یا گلستان۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ زمانۂ قدیم ہی سے اپنی خوب صورتی اور زرخیزی کے لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے اور اس کی یہ خوب صورتی اور دل ربائی ہی حقیقتاً بیرونی حملہ آوروں کو اس طرف کا رخ کرنے کی رغبت دلاتی رہی اور اس کی دل کشی خود اس کے لئے وبال جان بنی رہی۔ایرانیوں نے اسے لتاڑا تو کبھی یونانیوں نے اس پر یلغار کی۔ بدھ مت کے پیروں کاروں کو بھی یہ علاقہ نہایت مرغوب رہا اور مہاتما بدھ کی کئی روایات کو اس سرزمین سے وابستہ کر دیا گیا۔ سکندرِ اعظم کے دور میں یونانی مؤرخین نے اس علاقہ کا ذکر اس کے دریا کی نسبت سے کیا تھا جو موجودہ دور میں دریائے سوات اور عہدِ قدیم میں سواستو (Sawastu) پکارا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا سے نکلا ہے جس کے معنی سفید یا شفاف پانی کے ہیں۔ اس علاقہ کو اس کے صاف و شفاف پانی سے بھرپور ندی نالوں ہی کی وجہ سے سواستو یا سویتا پکارا گیا ہوگا جو بعد میں سواد اور پھر سوات بن گیا۔ اپنی تمام تر دل کشی اور تاریخی اہمیت کے باوجود تاریخ کے کسی دور میں وادیٔ سوات میں کسی دیرپا حکومت کے قیام کا پتہ نہیں چلتا۔ تاہم یہاں کسی منظم حکومت کے قیام کا دھندلا سا عکس بدھ مت کے دور میں دِکھائی دیتا ہے۔ اس وقت اس علاقہ میں سڑکوں کی داغ بیل ڈالی گئی تھی، نئی نئی آبادیاں وجود میں لائی گئی تھیں اور ایک بھرپور تہذیبی، سماجی اور مذہبی زندگی کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے عرصہ کے لئے ہندو شاہی نے اس سرزمین پر ایسے وقت اپنا پرچم لہرایا جب قبیلہ یوسف زئی موجودہ علاقوں سے بہت دور افغانستان کے علاقوں میں رہائش پذیر تھا۔ تاہم اس کا چراغ یہاں زیادہ دیر تک روشن نہ رہ سکا اور سلطان محمود غزنوی کی فوجوں کے ہاتھوں اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل ہو جانا پڑا۔ سوات کی سرزمین ایسے ہی حالات سے ہم کنار ہوتی رہی۔ وقت گزرتا گیا، مغل، درانی، سکھ اور انگریز ہر ایک نے اپنی طاقت آزما کر دیکھی لیکن ان میں کوئی ایک حملہ آور بھی اس علاقہ پر اپنی سیادت قائم نہ کر سکا۔ بالآخر 1850ء میں سید اکبر شاہ نے باقاعدہ طور پر ایک شرعی حکومت قائم کی لیکن ان کی وفات کی وجہ سے سوات پھر قبائلی دور میں چلا گیا تا آنکہ 1914ء میں سید عبدالجبار شاہ کو ریاستِ سوات کی باگ ڈور تھما دی گئی جنہیں بعد ازاں معزول کر دیا گیا۔1917ء میں حضرت عبد الغفور اخوند صاحبِ سوات کی اولاد سے میاں گل عبدالودود نے ایک منظم حکومت کی بنیاد ڈالی۔ جس نے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ایک جدید فلاحی ریاست کی شکل اختیار کی۔
سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب
No News Found.

سائنس اور ٹیکنالو
No News Found.

اسپیشل فیچرز
No News Found.

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Baadban Tv. All Rights Reserved