متوسط طبقے کے نام پر انتخابی عمل میں حصہ لینے والے تگڑے امیدوار

2018 کے الیکشن کے قریب آتے ہی جہاں سیاستدانوں کے اثاثہ جات کی خبریں زیربحث ہیں، وہیں تمام پارٹیوں کے ان وعدوں کو بھی زیر بحث لایا جا رہا ہے کہ آیا متوسط طبقہ کے محب وطن پاکستانی جو ملک کی خدمت کرنے کے خواہ ہیں، کیا ان کووعدوں کے مطابق موقع دیا گیا یا نہیں؟ الیکشن سے پہلے ہر پارٹی اپنے منشور میں نوجوانوں اور درمیانہ طبقہ کے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دینے کے دعوے کرتی ہے مگر ہر الیکشن میں اس طبقے کو کافی حد تک صرف اس وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی کے لیے مالی فنڈ دینے اور اپنی الیکشن کمپین چلانے کے لیے رقم کا انتظام نہیں کرسکتے۔

 

 

 

تفصیلات کے مطابق نئے امیدوار جو متوسط طبقہ سے نیشنل اسمبلی کی سیٹ کے لیے پہلی بار مختلف پارٹیوں سے الیکشن لڑیں گے وہ اس بار بھی خاندانی اثرورسوخ پر ہی ٹکٹ حاصل کرسکے ہیں۔ لیکن چند ایک امیدوار ایسے بھی ہیں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے خاران، پنجگور سے میر حاصل خان بزنجو کی نیشنل پارٹی سے این اے-270 کے لیے پھولین بلوچ پہلی بار الیکشن کا حصہ ہوں گے۔ ان کا تعلق بلوچ قبائل کے عام گھرانے سے ہے۔

 

 

 

بلوچستان کے ہی علاقے تربت این اے-271 سے ابو الحسن جو کہ نیشنل پارٹی کے ممبر ہیں، پہلی بار الیکشن کا حصہ ہوں گے۔ ابو الحسن کا تعلق بھی بلوچستان کے عام گھرانے سے ہے، جو کہ جمہوریت کے حوالے سے ایک خوش آئند بات ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا بھی تعلق ایک عام بلوچ گھرانے سے ہے اور وہ بھی نیشنل پارٹی کے ممبر ہیں۔

 

 

 

پیپلز پارٹی کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں پر ایلیٹ سیاسی کلچر نظر آتا ہے کیونکہ سابق صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان کے بیٹے منور وسان کو 2018 کے الیکشن کے لیے این اے-211 سے پارٹی ٹکٹ مل چکی ہے۔

 

 

 

اسی طرح ملتان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کو این اے-157 کے لیے پارٹی ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔

 

 

 

سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی آئندہ الیکشن میں اپنے بیٹے حسن علی شاہ سے انتخابی دنگل لڑائیں گے۔ سید حسن علی شاہ قومی اسمبلی کی نشست این اے-211 سے آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔

 

 

 

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پارٹی صدر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی معاملات کی نگرانی بھی کر رہے ہیں اور عملی سیاست کا آغاز الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-200 لاڑکانہ اور این اے- 246 لیاری سے کریں گے۔ اپنے والد کی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ارب پتی ہیں، جن کی پاکستان اور بیرون ملک پراپرٹیز ہیں اور دبئی اور برطانیہ میں سرمایہ کاری بھی کر چکے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے فراہم کردہ اثاثہ جات کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ ان کے پاس 5 کروڑ روپے نقد موجود ہیں جبکہ بینک اکاؤنٹس میں 1 کروڑ 38 لاکھ روپے جمع ہیں۔ تاہم حیران کن طور پر بلاول ایک بھی گاڑی کے مالک نہیں۔

 

 

 

پاکستان تحریک انصاف کی بات کی جائے تو آج کل پارٹی ٹکٹس کو لے کر کارکنوں کی جانب سے عمران خان کو احتجاج کا سامنا ہے۔ نشستوں کے حصول کے لیے مضبوط سیاسی خاندانوں کو زیادہ نوازا جا رہا ہے۔ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو آئندہ الیکشن میں پہلی بار سیاست کے میدان میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا جا رہا ہے۔

 

 

 

اوکاڑہ کی سیاست سے اہم سیاسی شخصیت اور سابق ایم این اے راؤ سکندر اقبال کے بیٹے راؤ حسن سکندرکو بھی پہلی بار اپنے والد کی نشست پر انتخابی میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ راؤ حسن سکندر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-141 سے الیکشن لڑیں گے۔

 

مسلم لیگ ن کے سربراہان کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نئے امیدوارں میں اپنی اولاد سمیت صرف مضبوط سیاسی خاندانوں کے امیدوارں کو ہی پارٹی ٹکٹ دی گئی۔ سیالکوٹ سے سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے بیٹے علی زاہد کو پارٹی ٹکٹ سے نواز دیا گیا ہے۔ علی زاہد حامد اپنے والد کی نشست پر این اے-74 سے الیکشن لڑیں گے۔

 

 

 

راولپنڈی سے مسلم لیگ ن کے سابق سینٹر چودھری تنویر خان کے بیٹے دانیال چودھری کو انتخابی دنگل میں اتارا جا رہا ہے اور وہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-62 سے اپنی سیاسی سفر کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔

 

سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازحلقہ این اے-127 سے پہلی بار سیاست کا آغاز کرنے جا رہی ہیں۔ مریم نواز چودھری شوگر ملز، حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ میں شئیر ہولڈر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے حمزہ اسپننگ ملز اور محمد بخش ٹیکسٹائل ملز میں بھی شیئرز ہیں۔

دستاویزات کے مطابق مریم نواز 1506 کنال ایک مرلہ، زرعی زمین کی مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی فیملی کی زیر تعمیر فلورملز میں 34 لاکھ 62 ہزارکی سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے۔ مریم نواز 4 کروڑ 92 لاکھ کے تحائف کے ساتھ ساتھ ساڑھے 17 لاکھ کے زیورات کی بھی مالک ہیں۔

 

 

 

سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف قومی اسمبلی کے حلقہ این اے- 124 سے پہلی مرتبہ میدان میں اتر رہے ہیں۔ حمزہ شہباز کے اثاثہ جات پر نظر ڈالیں تو 43 لاکھ 70 ہزار 243 روپے کا بینک بیلنس ہے اور وہ رمضان شوگر ملز سمیت 21 نجی ملز میں شئیر ہولڈ رہیں۔

 

 

 

دنیا میں کہیں بھی بشمول پاکستان، جمہوریت ایک سیاسی نظام کے طور پر عوام کے لیے ہے اور عوام ہی سے ہے۔ مگر جمہوری نظام جب سرمایہ درانہ نظام کے ماتحت ہو جائے تو متوسط طبقہ بھی سرمایہ دار کے ماتحت ہو جاتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو نئے تعلیم یافتہ محب وطن سیاستدانوں کی ضرورت ہے جو ملک کے سٹریٹیجک فیصلے لے سکیں اور ملک کو احسن انداز اور حقیقی ترقی پر گامزن کر سکیں۔ مگر اس طبقہ کے نوجوانوں کو حکومت کا موقع کب ملے گا؟ اس سوال کا جواب ابھی تک کسی کے پاس نہیں ہے۔

احتساب کا شکنجہ صرف ن لیگ کے خلاف؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مختلف حکومتوں اور ادوار میں کرپشن اور لوٹ مار کا شور بہت اٹھایا جاتا رہا مگر احتساب کا یہ عمل موثر اور نتیجہ خیز بننے کے بجائے ایک دوسرے کو ٹارگٹ کرنے اور اپنے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل تک محدود رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں احتسابی ادارے وجود میں آنے کے باوجود ملک میں کرپشن، لوٹ مار کا رجحان بڑھا اور کرپٹ، بددیانت اور خائن جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے بجائے مسند اقتدار تک پہنچتے نظر آئے۔

 

یہی وجہ رہی کہ کوئی کرپشن کرتے وقت پریشان نہ ہوا اور یہ سمجھ کر اپنے ہاتھ کالے کرلئے کہ کچھ لے دے کر معاملہ دب جائے گا۔ جنرل مشرف کے دور میں نیب کا ادارہ وجود میں آیا اور کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات زیادہ تر سیاستدانوں پر عائد ہوئے اور خود ان کے اپنے دور میں نیب کے ذمہ داران خصوصاً جنرل شاہد عزیز اور جنرل امجد ریکارڈ پر ہیں کہ کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کو ایوان صدر کی ہدایت پر یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ ہمیں اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے ایک جماعت بنانا ہے لہٰذا جن جن کے خلاف نیب میں مقدمات تھے وہ اس کنگز پارٹی کا حصہ بنتے چلے گئے اور جنرل مشرف کی کابینہ میں ایسے وزرا بھی شامل تھے جو وزیر ہونے کے باوجود احتساب کورٹ میں موجود نظر آئے اور انہیں ان عدالتوں سے بری ہونے کے سرٹیفکیٹ ملتے گئے۔

 

بعد ازاں سیاسی ادوار خصوصاً سابق صدر آصف زرداری اور خود میاں نواز شریف کے دور میں بھی نیب کے ادارے کو کرپٹ عناصر کے خلاف بروئے کار لانے کے بجائے اسے اپنے اپنے بندوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کے ازالہ کیلئے بروئے کار لایا گیا۔ ادھر پھر آصف زرداری جیسے سیاستدان اور حکمران کرپشن کے الزامات سے پاک ہوتے گئے۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں نیب کی پھرتیاں اور بعض انتخابی امیدواروں کی گرفتاری کا عمل اور سیاسی لیڈروں کی پیشیاں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے اور کوئی خاص ایجنڈا ہے جس پر کام شروع ہے۔

 

اس امر پر کوئی دو آرا نہیں کہ جس جس نے قومی دولت کو لوٹا وہ کسی طرح بھی قابل معافی نہیں اور اسے اس پر جوابدہ ہونا چاہئے اور کرپٹ عناصر کے گردن قانون کا شکنجہ کسا جانا اور ان کی گردن ناپنا ملک کے بہترین مفاد میں لازم ہے۔ لیکن انتخابی عمل کے دوران گرفتاریوں اور مقدمات کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کسی نہ کسی سطح پر یہ تحریک موجود ہے کہ یہاں انتخابی فضا نہ بن پائے اور عوام الناس انتخابی عمل کا حصہ بن کر ملک میں ایک مضبوط اور موثر حکومت نہ بنا پائیں۔

نیب کے سوالات، قمرالسلام کے جوابات

پانی کی فراہمی کیلئے پہلے سے موجود پبلک ہیلتھ انجئیرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہوتے ہوئے اس کمپنی کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ چونکہ مجھے کمپنی کے قیام کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹر کا رکن بنایا گیا لہذا مجھے اس بابت بھی کوئی علم نہیں کہ کیوں پہلے سے موجود ادارے کے باوجود یہ کمپنی بنائی گئی۔ لیکن ایک عام تاثر یہ ہے کہ کہ چونکہ مذکورہ ادارہ اس سلسلے میں موثر کارکردگی نہ دکھا سکا لہذا ایسی کمپنی کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی۔

 

کمپنی کے سی ای او کی تقرری کیلئے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کیا طریقہ کار اختیار کیا؟ جب میں نے بورڈ کی پہلی میٹنگ اٹینڈ کی تو فراصت اقبال پہلے ہی سے کمپنی کے سی ای او تھے۔ شاید انکا یہاں تبادلہ کچھ عرصہ پہلے ہی ہو چکا تھا کیونکہ وہ ایک سرکاری ملازم تھے لیکن ان کی تقرری ایک مسابقتی عمل کے ذریعے ہوئی۔ اس سلسلے میں اخبار میں اشتہار شائع ہوا، کمپنی کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ نے انٹرویوز کئے اور پھر ستمبر 2014 میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے سی ای او کا تقرر کیا۔

 

ایک ارب پندرہ کروڑ کا منصوبہ کیسے محض پائلٹ منصوبہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ ایک ارب ایک خطیر رقم ہے، میرے خیال میں پائلٹ پراجیکٹ محض ایک اصطلاح ہے۔

 

پلانٹس کی تنصیب کیلئے بولی کی دستاویزات ابتدائی طور پر کوالیفائی کرنے والے کنڑیکٹرز کو پروکیورمنٹ کمیٹی کی حتمی منظوری سے پہلے ہی 18 مارچ 2015 کو کیوں فراہم کر دئیے گئے؟ حالانکہ یہ منظوری تین اپریل 2015 کو ہوئی؟ یہ ایک انتظامی عمل تھا، بورڈ ممبرز کے پاس صرف وہی معلومات تھیں جو میٹنگ ایجنڈا میں فراہم کی جاتی تھیں۔ اس بارے قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ کیا یہ ایک انتظامی سطح کی ناکامی تھی یا اس میں کوئی بددیاتنی کا عنصر کارفرما تھا۔

 

پلانٹس کی تنصیب کیلئے بولی کی دستاویزات بورڈ آف ڈائریکٹرز سے کیوں نہ منظور کرائی گئیں؟ میری دانست میں بورڈ صرف اسی مدعے کو منظور یا نا منظور یا اس پر بحث کر سکتا ہے جو اسے فراہم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایجنڈا کمپنی مینجمنٹ طے کرتی تھی۔ ریکارڈ کو دیکھ کر اس بارے کچھ شواہد اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔

 

بورڈ نے اپنی 13ویں میٹنگ میں کویں کے ایس بی پمپس نامی کمپنی کو ایک ارب چودہ کروڑ کی بجائے ننانوے کروڑ کا ٹھیکہ دینے کی منظوری دی؟ جبکہ پنجاب پروکیورمنٹ قوانین میں واضح لکھا ہے کہ پروکیورمنٹ کمیٹی کسی بھی بولی لگانے والی کمپنی سے کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی۔ کمپنی کے سی ای او کی دانست میں انہوں نے اس عمل میں بچت کی ہے ، اور اس بابت کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔

 

سوال: منصوبے کی انجئینرنگ لاگت بارے تخمینے کی منظوری پروکیورمنٹ کمیٹی سے کیوں نہ لی گئی؟ آپ کی جانب سے بلائی گئی پروکیورمنٹ کمیٹی کے اجلاسوں میں اس بارے کیوں نہ مشاورت کی گئی؟ نیز ٹینڈر کا اشتہار انجنئرنگ تخمینے کی منظوری سے پہلے ہی کیوں مشتہر کیا گیا؟ انجیئرنگ کا تخمینہ پروکیورمنٹ کمیٹی یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے کبھی بھی پیش نہ کیا گیا۔ میرے استفسار پر مجھے بتایا گیا کہ کہ تخمینہ 99 کروڑ تک کا ہے اور یہ بات میٹنگ منٹس کا حصہ ہے۔ یہ تخمینہ خاصا تکنیکی ہوتا ہے اور یہ عمل بوڑد ممبر کی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کمپنی کو اپنی ٹیکنیکل ٹیم پر ہی انحصار کرنا پڑا۔ اس سارے عمل میں کمیٹی کو کمپنی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات پر ہی انحصار کرنا پڑا۔

 

ننانوے کروڑ سے زائد کا انجیئرنگ تخمیہ سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی سے منظور کیوں نہ کرایا گیا؟ مجھے سینٹرل ورکنگ پارٹی کے بارے آگاہی نہیں۔ لیکن مجھے اس منصوبے کے پی سی ون اور پی سی ٹو کے عمل بارے معلومات ضرور حاصل تھیں۔ میں نے اس بابت استفسار کیا تھا جس پر مجھے فنانس ڈیپارٹمنٹ کا ایک نوٹیفکیشن دکھایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ کمپنیاں سینٹرل ورکنگ پارٹی کے تابع نہیں ہیں۔ یہ نوٹیفکیشن کمپنی کے سی ای او نے دکھایا تھا۔

 

صاف پانی کیلئے بوڑد نے چوراسی کی بجائے ایک سو دو پلانٹس کی منظوری کیوں دی؟ انتظامیہ کے مطابق اس عمل میں بیس فیصد رعایت حاصل تھی اور اعلی افسران سمجھتے تھے کہ ان پلانٹس کی مزید ضرورت بھی ہو سکتی ہے لہذا رعایت سے مستفید ہونا چاہیے۔

 

بورڈ کی 26ویں میٹنگ میں پنجاب صاف پانی کمپنی کو دو حصوں میں کیوں تقسیم کر دیا گیا تھا؟ میٹنگ منٹس دستیاب ہیں اور ان کے مطابق صاف پانی کے منصوبے کو مزید تیز کرنے کے لئے حکومت نے کمپنی کو دو حصوں یعنی شمالی اور جنوبی کے نام سے تقسیم کیا۔

 

انجیئنر قمر السلام سے پوچھے گئے کل 33 سوالات اور ان کے جوابات پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹوز اور دیگر اعلی افسران کئی معاملات میں بورڈ ممبرز سے مشاورت نہیں کیا کرتے تھے، اور اہم فیصلوں بارے بورڈ کو محض آگاہ کر دینے کے بعد آگے چل دیتے تھے ۔ صاف پانی کمپنی اسکینڈل میں چیف سیکرٹری پنجاب خود چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے اعتراف کر چکے ہیں کہ ا س منصوبے میں اب تک چار ارب روپے ضائع ہوئے ہیں اور بدلے میں ایک بوند صاف پانی بھی عوام کو فراہم نہ کی جاسکی۔

پاکپتن: ن لیگ میں‌اختلافات کی آندھی

لاہور ماڈل ٹاؤن میں چند روز قبل اجلاس میں منصب علی ڈوگر کو حلقہ این اے 145 اور انکے بھتیجے سردار وقاص امجد ڈوگر کو حلقہ پی پی 193 سے ن لیگ کے ٹکٹ دیئے گئے تھے لکین دو دن بعد ٹکٹ واپس لے کر عمران خان کی بشری بی بی کے سابق دیور میاں احمد رضا مانیکا کو حلقہ این اے 145 کا ٹکٹ دے دیا گیا اور سردار منصب علی ڈوگر کو حلقہ پی پی 193 سے الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا گیا جس پر سردار منصب علی ڈوگر مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت سے ناراض ہو گئے اور اپنے حلقے میں مشاورتی جرگہ بلا لیا ابھی جرگہ جاری تھا کہ کراچی سے شہباز شریف نے فون کرکے سردار منصب علی ڈوگر کو ٹکٹ لینے کے لئے فون کیا اور لاہور ملاقات کے لئے اگلے روز بلایا لیکن سردار منصب علی ڈوگر نے میاں شہباز شریف کا فون سپیکر آن کرکے سنا جو گفتگو دونوں رہنماؤں کے درمیان ہوئی وہ تمام شرکا کے علم میں آگئی۔

 

سردار منصب علی ڈوگر نے دونوں ٹکٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر کو بتایا کہ وہ قیادت کے شام کے وقت کے ساتھی تھے اور قیادت نے گھر بلا کر بےعزت کیا ہے انھوں نے جلا وطنی دور کی قربانیوں کا بھی ذکر کیا سردار منصب علی ڈوگر نے دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلہ میں انھوں نے اپنے حلقہ احباب سے مشاورت بھی شروع کر دی ہے پاکپتن میں ٹکٹ کی غلط تقسیم سے مسلم لیگ ن کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے، ایک طرف مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے سید سلمان محسن گیلانی نے بھی اپنے قریبی ساتھی کو اسی حلقہ سے امیدوار کھڑا کیا ہے دوسری طرف سردار منصب علی ڈوگر بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کے لئے جوڑ توڑ کر رہے ہیں جس سے مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک تقسیم ہو گا اور جس کا فائدہ یقینا مخالف جماعت پاکستان تحریک انصاف کو پہنچے گا۔

 

دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر میاں احمد رضا مانیکا کو مقامی تنظیم کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا ہے دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ احمد رضا مانیکا کے چھوٹے بھائی میاں فاروق مانیکا ن لیگ کے امیدوار میاں حیات محمد خاں مانیکا کے مد مقابل الیکشن لڑ رہے ہیں جس سے میاں عطا محمد مانیکا کو بھی قیادت پر شدید تحفظات ہیں ۔

پنجاب میں طوفانی بارش: مختلف حادثات میں 6 افراد جاں بحق، متعدد زخمی

پنجاب اور سندھ میں بارش کے باعث چھتیں گرنے کے مختلف واقعات اور حادثات پیش آئے۔ لاہور میں بارش کے باعث چھتیں گرنے سے 2 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہو گئے۔ سبزہ زار جی بلاک میں بھی مکان کی چھت گر گئی جس سے 3 افراد زخمی ہوئے۔ بارش کے باعث لاہور میں ٹریفک کے 26 حادثات میں 14 افراد زخمی ہوئے، متعدد علاقوں میں بجلی غائب رہی، 140 سے زائد سے فیڈرز ٹرپ کر گئے۔

 

لاڑکانہ اور گردونواح میں آندھی اور بارش کے باعث دیواریں اور مکانوں کی چھتیں گر گئیں، چھت گرنے سے 4 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے۔ خیرپور میں قومی شاہراہ پر رانی پور کے قریب مسافر کوچ الٹ گئی، حادثے میں 10 افراد زخمی ہوئے۔ سکھر، شکارپور، ڈھرکی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں بارش کے باعث فیڈر ٹرپ کر گئے جس سے متعدد علاقے تاریکی میں ڈوبے رہے۔

قرضہ معافی کیس، یوسف رضا گیلانی کو الیکشن لڑنے کی مشروط اجازت

سابق وزیرِاعظم سید یوسف گیلانی کو الیکشن ٹربیونل نے قرضہ معافی کیس میں مشروط طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے 30 ملین کی جائیداد زرعی ترقیاتی بینک کے پاس گروی رکھوا کے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی ہے۔

 

سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ نے 2004ء میں پرائیویٹ کمپینوں کے ذمہ 700 ملین روپے معاف کروائے تھے جس میں فوزیہ گیلانی 12 فیصد کی شیئر ہولڈر تھیِں جس پر سابق وزیرِاعظم نے راجن پور اور جام پور میں زمین گروی رکھوا دی ہے۔

 

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے پر زرعی ترقیاقی بینک نے اپلیٹ ٹربیونل میں اپیل دائر کر رکھی تھی۔

 

نیب نے دوبارہ بلایا تو الیکشن کے بعد جاؤں گا، شہباز شریف

ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف دوسرے روز بھی سندھ کے محاذ پر ہیں۔ انہوں سابق صوبائی حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور الیکشن جیت کر آبی بحران حل کرنے کا نعرہ بھی لگایا۔ کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم پر گفتگو بھی قومی اتحاد کو برباد کر دے گی۔

 

ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے کراچی میں مصروف دن گزارا اور مقامی ہوٹل میں سینئر صحافیوں، اقلیتی برادری اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ذمہ داری ملی تو کراچی کی حالت بدل دینگے۔ پانی، بجلی اور بہترین ٹرانسپورٹ فراہم کیا جائے گا۔

 

شہباز شریف نے بھاشا ڈیم کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پانی بحران میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی۔ ن لیگ کے صدر کا کہنا تھا کہ اگلا چیلنج پانی کا بحران ہے۔

 

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بجلی کا بحران ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ سی پیک کے ذریعے جھمپیر، گوادر اور دیگر مقامات پر بڑے منصوبے لگائے گئے ہیں۔ پورٹ قاسم اور ساہیوال کے منصوبوں نے مخالفین کو خاموش کرا دیا ہے۔

این آر او کا قانون بنانے میں کوئی کردار نہیں، آصف زرداری

سپریم کورٹ میں این آر او کے حوالے سے دائر مقدمے میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے جواب جمع کرا دیا ہے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ این آر او کو قانون بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا۔ 2007ء میں این آر او قانون کے تحت مقدمات واپس لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم جب عدالت نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تو واپس لیے گئے مقدمات دوبارہ کھول دیے گئے تھے۔

 

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ان پر خزانے کو لوٹنے اور ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ میرے خلاف مخالفین نے سیاسی مقدمات بنائے تھے جو دراصل مجھے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش تھی۔

 

واضح رہے کہ آصف علی زرداری کی جانب سے یہ جواب سپریم کورٹ میں این آر او کے خلاف دائر کردہ مقدمے میں جمع کرایا گیا۔ فیروز شاہ نامی شہری نے سپریم کورٹ میں آصف زرداری اور پرویز مشرف کے خلاف قومی مصالحت آرڈیننس (این آر او) کے ذریعے قومی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہچانے کے حوالے سے پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔

این اے 53 اسلام آباد: عمران خان کی الیکشن ٹربیونل میں حاضری

اسلام آباد ہائی کورٹ میں قائم اپیلیٹ ٹریبونل میں جسٹس محسن اختر کیانی کے سامنے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پیش ہو کر کاغذات نامزدگی فارم کی شق این پر کر دی۔ چیئرمین تحریک انصاف شق این پر کر کے اسلام آباد ہا ئی کورٹ سے واپس روانہ ہو گئے۔ اس موقع پر عمران خان سے صحافیوں کی جانب سے پوچھا گیا کہ فارم کی شق این میں کیا لکھا تو جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں نے لکھا ہے کہ میں نے شوکت خانم ہسپتال بنایا، میں نے نمل یونیورسٹی بنائی، عوام کو آئینی حقوق کی جدوجہد کرنے کا شعور دیا۔

 

یاد رہے اسلام آباد کے اپیلٹ ٹربیونل نے نامکمل کاغذاتِ نامزدگی پر عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔ عمران خان نے کاغذاتِ نامزدگی میں حلقے کے لیے خدمات سے متعلق کالم  این  خالی چھوڑ دیا تھا جس پر ریٹرننگ افسر نے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دئیے۔ اپیل کی سماعت کرتے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے شاہد خاقان عباسی کی طرح عمران خان بھی خود پیش ہو کر خالی کالم پُر کریں۔