سیاسی جماعتوں کے اختلافات،امیدواروں میں رد و بدلi

کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ سے ایک روز قبل تک بڑی سیاسی جماعتیں اندرونی خلفشار کے باعث اپنے امیدواروں کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ متعدد حلقوں پر مضبوط اور اہم رہنمائوں کےساتھ متبادل امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرانے والے افراد نے کاغذات واپس لینے سے انکار کردیا ہے جبکہ پارٹی سربراہان کے انتخابی حلقوں پر بھی سخت تحفظات سامنے آرہے ہیں۔ مسلم لیگ ن تاحال مریم نواز کے حلقے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام نظر آرہی ہےدو روز کے دوران تین بار ان کا حلقہ تبدیل کرنے کی اطلاعات جاری کی گئی ہیں ۔

 

اسی طرح سے این اے 184اور 186 پر امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو ہی قومی اسمبلی کے حلقوں سمیت 6 ٹکٹ جاری کردئے ہیں جبکہ 6 دیگر حلقوں پر رکن صوبائی اسمبلی کو ہی رکن قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیدیا گیا ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف ابھی تک اپنے سربراہ عمران خان کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے والے حلقوں کا حتمی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ قومی اسمبلی کے 5حلقوں پر عمران خان کے کاغذات نامزدگی جمع ہوئے جن میں سے لاہور کا حلقہ 131میں عمران خان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے اہم رہنما سعد رفیق سے متوقع تھا مگر تحریک انصاف کے معتبر حلقوں کے مطابق عمران خان کے اس حلقے سے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا اعلان جلد ہی کردیا جائے گا۔

 

واضح رہے کہ اس حلقے کو عمران خان بمقابلہ سعد رفیق کے حوالے سے ملکی سیاسی منظر نامہ پر خاصی اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف 16حلقوں سے اپنے امیدواران کے ناموں کو حتمی شکل دینے میں ناکام ہے جس کی وجہ متبادل امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی واپس لینے سے انکار ہے۔ ناراض اراکین کو منانے کی کوششیں جاری ہیں جس کے بعد حتمی ناموں کا اعلان متوقع ہے ۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے واضح طور پر امیدواران کی کوئی فہرست جاری نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی امیدواروں کا اس حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے۔

 

ذرائع کے مطابق گزشتہ 5 روز کے دوران امیدواروں کی حتمی فہرست کی تیاری کے لئے16اجلاس منعقد ہوئے جس میں امیدواروں نے مختلف ٹولیوں کی صورت میں پارٹی سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے 31 حلقوں سے اپنے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دینے میں ناکام ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹوں و دیگر رشتہ داروں کا سیٹیں ملنے پر پیپلز پارٹی پنجاب کی جانب سے شدید تحفظات ظاہر کئے گئے ہیں۔

 

جبکہ شوکت بسرا اور منظور وٹو ، قیوم جتوئی اور ان کا بیٹا آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جو پیپلز پارٹی کی جانب سے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرنے میں تاخیر کی بنیادی وجہ ہے۔ واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجراء میں تاخیر ہوتی رہی ہے مگر اس بار ان جماعتوں میں اندرونی اختلافات کے باعث فہرستوں کے اجراء میں تاخیر ہوئی ہے۔

اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانیوالے نگراں وزراء کو کام سے روکنے کا فیصلہ

الیکشن کمیش کی جانب سے جاری کردی نوٹس کے متن میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے تک آپ کو کام سے روک دیا جائے، نگراں وزیراعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ، 6 وفاقی وزراء تفصیلات دے چکے ہیں، پنجاب کے 2 اور سندھ کے ایک نگراں وزیر نے تفصیلات فراہم کی ہیں، عہدہ سنبھالنے کے 3 روز میں اپنے اور زیرکفالت افراد کے اثاثوں کی تفصیلات دینا تھیں۔

اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانیوالے نگراں وزراء کو کام سے روکنے کا فیصلہ

الیکشن کمیش کی جانب سے جاری کردی نوٹس کے متن میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے تک آپ کو کام سے روک دیا جائے، نگراں وزیراعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ، 6 وفاقی وزراء تفصیلات دے چکے ہیں، پنجاب کے 2 اور سندھ کے ایک نگراں وزیر نے تفصیلات فراہم کی ہیں، عہدہ سنبھالنے کے 3 روز میں اپنے اور زیرکفالت افراد کے اثاثوں کی تفصیلات دینا تھیں۔

اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانیوالے نگراں وزراء کو کام سے روکنے کا فیصلہ

الیکشن کمیش کی جانب سے جاری کردی نوٹس کے متن میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے تک آپ کو کام سے روک دیا جائے، نگراں وزیراعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ، 6 وفاقی وزراء تفصیلات دے چکے ہیں، پنجاب کے 2 اور سندھ کے ایک نگراں وزیر نے تفصیلات فراہم کی ہیں، عہدہ سنبھالنے کے 3 روز میں اپنے اور زیرکفالت افراد کے اثاثوں کی تفصیلات دینا تھیں۔  Continue reading اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانیوالے نگراں وزراء کو کام سے روکنے کا فیصلہ

انتخابی مہم پر کروڑوں روپے کے اخراجات

 

 

اسی طرح قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے کئی کئی امیدوار مد مقابل ہوتے ہیں ۔ سروے کے دوران تین بڑی ملکی پارٹیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے کم سے کم تین امیدوار اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے کم سے کم اوسط 5امیدواروں کا تناسب مقرر کیا گیا ۔

 

اس تناسب سے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں فی حلقہ تین امیدواروں کی اوسط سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں 816 امیدوار ہوتے ہیں، فی امیدوار 98 لاکھ 90 ہزار کے حساب سے 816 امیدواروں کے اشتہاری مہم کی مد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر اخراجات 8 ارب 7 کروڑ روپے سے زائد بن رہے ہیں۔ یعنی یہ وہ اخراجات ہیں جو امیدوار قومی اسمبلی کی نشستوں پر اشتہاری مہم کی مد میں کررہے ہیں۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی 577 نشستیں ہیں جن پر اوسط 5 امیدوار فی حلقہ کے حساب سے 2885 امیدوار ہوتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار کا خرچہ 66 لاکھ 91 ہزار سے زائد آرہا ہے جبکہ 2885 امیدواروں کا اشتہاری مہم پر اخراجات تقریبا 19 ارب 30 کروڑ سے زائد بن رہا ہے ۔

 

یعنی ہماری قومی و صوبائی کی نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کی اشتہاری مہم کی مد میں مجموعی طور پر تقریبا 27 ارب 38 کروڑ روپے کے اخراجات ہو رہے ہیں جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اخراجات کی مقررہ حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ خطیر اخراجات کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والے افراد اپنے اخراجات وصولنے کی کوششیں کرتے ہیں جس کے بعد بڑے پیمانے پر کرپشن کے کیسز سامنے آتے ہیں جو عوام کو دن بدن جمہوری عمل سے دوری کرنے اور ووٹنگ عمل میں عدم دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں۔

 

اس سارے انتخابی عمل کو حدود و قیود کا پابند کیا جاتا ہے اور ان حدود کی نگہبانی الیکشن کمیشن کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابی عمل کے مختلف مراحل طے کرتا ہے اور ان مراحل پر طے کردہ قواعد کے مطابق عمل کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے احکاامات کی دھجیاں اڑانا انتخابات میں حصہ لینے والوں نے اپنے لئے لازم کرلیا ہے۔ انتخابی مہم کے انہی مراحل میں سے ایک مرحلہ اشتہاری مہم کا بھی ہوتا ہے ۔ دیکھا جائے تو انتخابی معرکوں میں حصہ لینے والے شاہسوار ویسے تو ہمیشہ ہی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں تاہم انتخابات کے قریب آکر اور خاص طور پر انتخابی نشانات الاٹ ہونے کے بعد انہی امیدواروں کی اشتہاری مہم میں تیزی آجاتی ہے ۔

 

یہ عمل بھی جمہوریت کا حسن ہے مگر یہ حسن اس وقت ماند پڑجاتا ہے جب اس میں پیسے کا بے دریغ استعمال کرکے الیکشن کمیشن کے احکامات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ قواعد کے مطابق ایک امیدوارصرف اشتہاری مہم میں صرف 40 لاکھ کے اخراجات کرسکتا ہے اور اسی طرح صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو اشتہاری مہم کی مد میں 30لاکھ روپے تک کے اخراجات کرنے کی اجازت ہے۔ مگر پاکستان میں گنگا الٹی بہتی نظر آتی ہے۔

 

پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کی تاریخ میں شاید ہی کسی امیدوار نے الیکشن کمیشن کے اس اصول پر عمل کیا ہو۔ مخالف کو زیر کرنے کے لئے اپنائے جانے والے حربوں میں پیسے کا بے جا استعمال ایک اہم حربہ سمجھا جاتا ہے اور کروڑوں روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں اور پھر عام تاثر یہ ہے کہ اشتہاری مہم میں اڑایا جانے والا پیسہ مختلف غیر قانونی طریقوں سے انتخابات جیتنے کے بعد پورا کیا جاتا ہے۔

 

اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے کل 272 اور صوبائی اسمبلی کے 577 حلقوں میں بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار اور کئی چھوٹی اور مقامی جماعتوں کے امیدوار بھی شرکت کر رہے ہیں۔ ایک حلقے میں متعدد امیدوار موجود ہیں تاہم سروے کے دوران اعداد و شمار جمع کرتے ہوئے تین بڑی جماعتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کے فی حلقہ تین اور صوبائی اسمبلی میں فی حلقہ 5 امیدواروں کا تناسب رکھا گیا ہے۔ ایک حلقے میں اشتہاری مہم چلانے والا امیدوار اپنے تصویروں اور پیغامات سمیت اپنی معلومات پر مشتمل فلیکس ، پمفلٹ ، سٹیمر، سٹیکرز ، بروشرز اور بیجز تیار کرواتا ہے اوریہ وہ مواد ہے جو ہر امیدوار کم از کم لازمی بنواتا ہے بلکہ اس کے بغیر انتخابی عمل میں شمولیت کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے مختلف پرنٹنگ پریسز کے سروے کے دوران ملنے والے اعدادوشمارجمع کئے گئے ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

 

فلیکس:

فلیکس قومی و صوبائی امیدواروں کی انتخابی مہم کا اہم جز ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ فلیکسز کو عام طور پر دفاتر و اہم شاہراہوں پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ فلیکسز کے استعمال کی وجہ بارش میں اس کا خراب نہ ہونا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک حلقے کا امیدوار اپنے لئے تقریبا 3 لاکھ سکوائر فٹ پر مشتمل فلیکسز بنوا رہا ہے، ایک فلیکس عمومی طور پر 8×12 اور10×12 کی ہوتی ہے جس کے حساب سے ان کی تعداد تقریبا 4200 فلیکسز بنتی ہے اور ان پر 68 لاکھ 50ہزار روپے فی امیدوار خرچ آ رہا ہے ۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کا امیدوار اسی تعداد میں کمی کرکے تقریبا 2.5 لاکھ سکوائر فٹ پر مشتمل فلیکسز بنوا رہا ہے اور 8×12 فی فلیکس کے حساب ان کی تعداد 2600 فلیکسز فی امیدوار بنتی ہے۔

عام انتخابات: امیدواروں کے پاس پارٹی ٹکٹس جمع کرانے کا آج آخری دن

الیکشن کمیشن کے مطابق، انتخابات میں حصہ نہ لینے والے امیدواروں کے پاس بھی آج کاغذات نامزدگی واپس لینے کا آخری دن ہے، ریٹرننگ افسران امیدواروں کی حتمی فہرست شائع کریں گے جبکہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کئے جائیں گے۔

 

دوسری جانب صوبائی الیکشن کمشنر آج سندھ کی مخصوص نشستوں کے امیدواروں کی فہرستیں بھی جاری کرینگے، ڈاکٹرفاروق ستار، خواجہ اظہار، خالد مقبول صدیقی ودیگر اراکین مختلف حلقوں سے کاغذات واپس لینگے۔

توہین عدالت کیس: احسن اقبال نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ میں وفاقی وزیر احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے ریمارکس دیئے کہ آپکے تحریری جواب میں معافی کیلئے وہ الفاظ نہیں جو قانونی طور پر ہونے چاہیے، کل ایک شخص کو نااہل کیا گیا وہ سپریم کورٹ کے باہر کہہ رہا تھا کہ کبھی معافی نہیں مانگی، جس پر احسن اقبال نے کہا عدلیہ کی عزت کرتا ہوں۔ عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کرتے جواب طلب کر لیا۔

 

احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا مسلم لیگ ن کیخلاف ایک طرفہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں، انتقامی کارروائیوں کی بدولت لوگوں کی ہمدری مسلم لیگ ن کیلئے بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا عوام کی ہمدریاں مسلم لیگ ن کے پلڑے میں آ رہی ہیں، ہمیں عمران خان سے دشمنی کی ضرورت نہیں، 25 جولائی کو عوام خود انہیں مسترد کر دیں گے۔

 

لیگی رہنما کا کہنا تھا پی ٹی آئی اس وقت ق لیگ، پیپلزپارٹی کے لوٹوں کا ملغوبہ ہے، عمران خان سیاست میں آج بھی اناڑی ہیں۔

 

نواز شریف، شاہد خاقان کیخلاف بغاوت کیس، سرل المیڈا کو طلبی کا نوٹس

لاہور ہائیکورٹ میں سابق وزراء اعظم نواز شریف اور خاقان عباسی کے خلاف بغاوت کی کارروائی کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس پر سماعت کی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

 

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف نے متنازعہ انٹرویو دیکر ملک و قوم سے بغاوت کی، شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی سابق وزیر اعظم کو بتا کر حلف کی پاسداری نہیں کی، لہٰذا دونوں رہنماؤں کے خلاف بغاوت کی کارروائی کی جائے۔

 

سماعت کے دوران شاہد خاقان عباسی نے موقف اپنایا کہ انہیں عدالت کا نوٹس موصول نہیں ہوا، وہ ایپلیٹ ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ آئے تھے۔ عدالت نے سرل المیڈا کو طلبی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ستمبر تک ملتوی کر دی۔

ٹکٹوں کی تقسیم پر کارکنوں کا احتجاج، شاہ محمود کی رہائشگاہ پر دھرنا

تحریک انصاف ڈیرہ غازی خان کے کارکنوں نے الیکشن میں ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وائس چیرمین نے ٹکٹیں دیتے وقت کارکنوں کو نظر انداز کر کے اپنے من پسند لوگوں کو ٹکٹ دئیے جس سے انتخابات میں پی ٹی آئی کو نقصان ہو گا۔ ڈیرہ غازی خان کے حلقہ پی پی 289 کا ٹکٹ حنیف پتافی کو دیا جائے۔

 

 

 

شاہ محمود قریشی نے مظاہرین سے مذاکرات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے ملک میں خواتین کو 5 فیصد کوٹہ ٹکٹ دینا لازمی ہے جس کی بنا پر حنیف پتافی کی جگہ ڈیرہ غازیخان کے حلقہ پی پی 289 سے شاہینہ نجیب کھوسہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے، تاہم مظاہرین نے شاہ محمود قریشی کی بات کو رد کرتے ہوئے مظاہرہ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

 

 

 

مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک حنیف پتافی کو تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں دیا جاتا تب تک مظاہرہ اور دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔

آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل: احد چیمہ سمیت 6 افراد کیخلاف کرپشن ریفرنس دائر

نیب لاہور نے احتساب عدالت میں سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد خان چیمہ کے خلاف ریفرنس فائل کر دیا۔ احد چیمہ پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے نا صرف جائیداد یں بنائیں بلکہ پیراگون سٹی کو غیر قانونی ٹھیکوں کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ نیب کی جانب سے ریفرنس میں احد چیمہ کے خلاف ایک ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

 

نیب نے احد چیمہ کے علاوہ 5 افراد کے خلاف بھی کرپشن ریفرنس دائر کیے، شاہد شفیق، بلال قدوائی کے خلاف بھی کرپشن ریفرنس دائرکیا گیا ہے۔ نیب نے سابق سی ای او لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی امتیاز حیدر اور سابق انجینئر ایل ڈی اے اسرار سعید کے خلاف بھی کرپشن ریفرنس دائر کیا۔ اسپیشل پراسکیوٹر نیب کے مطابق ملزمان نے اختیارات سے تجاویز کیا، ناجائز مالی فوائد حاصل کئے اور دلوائے۔