پیپلز پارٹی کا پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ

پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا، بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ڈٹ کر اپنا کردار ادا کریں گے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سے پنجاب کے نومنتخب ارکان صوبائی اسمبلی نے بلاول ہاؤس کراچی میں ملاقات کی اور حکومت سازی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔

دنیا نیوز کے ذرائع کے مطابق چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے گرین سگنل کے بعد پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

نومنتخب ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ تعداد کم ہے تو کیا ہوا؟ پنجاب میں ڈٹ کر اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ کوئی کٹھ پتلی نہیں صرف پیپلز پارٹی ہی بنا سکتی ہے۔

انہوں نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کی غیر مشروط حمایت نہیں کریں گے، ہماری حمایت اور مخالفت عوامی مسائل کی بنیاد پر ہو گی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی سے ملاقات کرنے والوں میں حسن مرتضیٰ، علی حیدر گیلانی اور دیگر شامل تھے۔

ن لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ کی کامیابی کا نوٹیفکیشن چیلنج

لاہور ہائیکورٹ میں رانا ثنا اللہ کیخلاف یہ درخواست فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 106 سے ناکام امیدوار ڈاکٹر نثار احمد نے دائر کی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ رانا ثنا اللہ اسلام کا تقدس پامال کرنے میں ملوث ہیں، انہوں نے اسلام کا تقدس پامال کر کے آئین کی خلاف ورزی کی اور آئین کے آرٹیکل 62، 63 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

درخواست میں عدالتِ عالیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ رانا ثنا اللہ کو نااہل قرار دے کر بطور ایم این اے کامیابی کا نوٹیفکیشن روکا جائے۔

عمران خان کا قومی اسمبلی کی چار نشستیں چھوڑنے کا فیصلہ

عمران خان نے عام انتخابات 2018ء میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن انھیں ان میں سے چار نشستیں چھوڑنا پڑیں گی، اس سلسلے میں انہوں نے اپنے پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کی ہے۔

دنیا نیوز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کا اپنے آبائی حلقہ میانوالی کی نشست برقرار رکھنے کا امکان ہے کیونکہ وہ انتخابی مہم کے دوران میانوالی کی نشست پاس رکھنے کا وعدہ بھی کر چکے ہیں۔

عمران خان اسلام آباد کے حلقہ این اے 53، لاہور کے حلقہ این اے 131، بنوں کے حلقہ این اے 35 اور کراچی سے این اے 243 کی نشست چھوڑنے کو تیار ہیں۔

ذرائع کے مطابق پارٹی کے بعض رہنماؤں نے پی ٹی آئی چیئرمین کو لاہور کی سیٹ نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں ان کے مخالف امیدوار سے ووٹوں کا فرق کم ہے، ضمنی انتخاب ہوئے تو اسے جتنا مشکل ہو گا۔

برازیل کے وزیر دفاع کی پاکستان کے وزیر دفاع سے ملاقات

اسلام آباد:31 جولائی 2018 ئ
وفاقی وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی سے برازیل کی آرمڈ فورسز کے چیف آف سٹاف ایڈمرل ایڈیمیر سوبرینہو نے ملاقات کی جوکہ منگل کو راولپنڈی میں وزارت دفاع میں ہوئی۔
وفاقی وزیر نے ایڈمرل کا خیر مقدم کیا جوکہ کسی برازیلی چیف آف سٹاف کی طرف سے پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ ملاقات کے دوران علاقائی صورتحال اور دوطرفہ تعاون کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر نے کہا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے خواہ یہ کسی شکل میں ہو اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی برادری سے کئی جہتی تعاون کیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کوششوں پر زوردیا اور خاص طورپر پاکستان میں خیبر 4، آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا۔
وفاقی وزیر دفاع نعیم خالد لودھی نے کہا کہ پاکستان برازیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور ان تعلقات کو تمام شعبوں میں وسعت دینے کا خواہاں ہے۔دونوں رہنماﺅں نے دفاعی تعاون بڑھانے اور اسے متنوع بنانے کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا جبکہ دونوں ممالک میں دفاعی شعبوں میں تعاون کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں۔دونوں اطراف نے دفاعی تعاون کو مفاہمت کی یادداشت کے ذریعے ادارہ جاتی بنانے پر بھی اتفاق کیا۔
وفاقی وزیر نے برازیلی نیوی کی 2017ءمیں AMANمشقوں میں شرکت کو سراہا اور برازیلی آرمی چیف کو آئیڈیاز 2018ءاور AMAN 2019ءمیں شرکت کی دعوت دی۔
٭٭٭

گوجرانوالہ میں نالے سے راکٹ برآمد

گوجرانوالہ:(31 جولائی 2018) گوجرانوالہ میں  پولیس کو نالے سے راکٹ برآمد ہوا ہے۔

پولیس کے مطابق انیس انچ کے راکٹ کا وزن دس کلو گرام سے زائد ہے۔

 

تحریک انصاف کو 168ارکان قومی اسمبلی کی حمایت مل گئی،،پنجاب میں 149ارکان کی حمایت حاصل ،(ق) لیگ سے اتحاد کا فارمولا طے پا گیا ، پنجاب کا وزیراعلیٰ کس جماعت کا ہوگا؟ تحریک انصاف نے تفصیلات جاری کرد

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکز میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کیلئے 168ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہو گئی ہے جبکہ پنجاب میں 149ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے،(ق) لیگ سے اتحاد کا فارمولا طے پا گیا ہے، پنجاب کا وزیراعلیٰ (ق) لیگ نہیں تحریک انصاف کا ہو گا، ایم کیو ایم مرکز میں تحریک انصاف کا ساتھ دے گی۔ پیر کو بنی گالہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے ہماری تعداد پوری ہے،

ہم نے یہ تعداد آج پوری کرلی ہے، جہانگیر ترین ایم کیو ایم پاکستان سے مذاکرات کریں گے، آزاد ارکان کی شمولیت (ق) لیگ، بی اے پی بلوچستان ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے کے ارکان کی حمایت ملنے کے بعد خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں کا حساب کتاب لگانے کے بعد مجموعی طور پر اب تک تحریک انصاف کو قائد ایوان وزیراعظم کے انتخاب کیلئے 168 ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی ہے جبکہ پنجاب میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کے بعد ارکان کی تعداد 180 تک پہنچ جائے گی اور تحریک انصاف آسانی سے اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرا لے گی، وزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ عمران خان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنے گی۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کسی اتحادی جماعت کا نہیں بلکہ تحریک انصاف کا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت ہے، وفاق میں ہمارے ساتھ اقلیتیں بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے امیدواروں کو ہدایت کی ہے کہ اپنے انتخابی اخراجات کی فہرست جلد از جلد جمع کرائیں، ہم بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں،قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہو گا، اس کے بعد وزیراعظم کا انتخاب ہو گا، اتحادیوں کو کابینہ میں شامل کیا جائے گا، اجلاس بلانے میں ابھی 21دن باقی ہیں، ہماری وفاق اور صوبے میں اکثریت کو کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے، قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ صدر مملکت نے کرنا ہے، حکومت سازی سے متعلق تمام فیصلے عمران خان کریں گے۔)

ن)لیگ کو ایک اورجھٹکا، ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں اہم رہنما جیتی ہوئی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے

سرور(سی پی پی)ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے عمل کے دوران مسلم لیگ ن کو بڑا دھچکا لگ گیا،ن لیگ کے مرزا الطاف اپنی نشست ہار گئے۔تفصیلات کے مطابق پی پی 39 پسرورمیں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل مکمل ہو گیاجس میں آزادامیدواررانا لیاقت 221ووٹ کی برتری سے جیت گئے۔ریٹرننگ افسر کے مطابق دوبارہگنتی کے دوران آزاد امیدوار رانا لیاقت نے مجموعی طور پر 30 ہزار991ووٹ حاصل کئے جبکہ ن لیگ کے مرزا الطاف 30ہزار770ووٹ لے کر دوسرے نمبر پررہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل ریٹرننگ افسر نے مسلم لیگ ن کے مرزا الطاف کو کامیاب قرار دیا تھا تاہم

دوبارہ گنتی پر اپنی برتری کو برقرار نہ رکھ سکے

نواز شریف مرکز ، پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کے حامی

پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے حالیہ کوششیں، جوڑ توڑ، ملاقاتیں محض سیاسی سرگرمی کے طور پر ہے ، تاکہ پارٹی رہنما، بالخصوص پنجاب سے عہدیدار اور کارکن مکمل طور پر مایوس نہ ہوں اور متحرک رہیں۔ روزنامہ دنیا رپورٹ کے مطابق پارٹی قائد نواز شریف اور مریم نواز اس حق میں نہیں ہیں کہ پنجاب میں صرف چند ووٹوں سے کمزور ترین حکومت بنائی جائے جس کے سر پر ہر وقت عدم اعتماد کی تلوار لٹکتی رہے ، نواز شریف اس حق میں ہیں کہ مرکز اور پنجاب میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کیا جائے اور تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ یہ چل نہ پائے ۔

رپورٹ کے مطابق انتخابی نتائج کے تحت اگرچہ پی ایم ایل ن کو گنتی کی چند نشستوں کی برتری حاصل ہے تاہم آزاد ارکان کی اکثریت تحریک انصاف میں شامل ہوچکی ہے یا خواہش مند ہے ، مسلم لیگ ن کی پنجاب میں عددی اعتبار سے کمزور پوزیشن کی وجہ سے نواز شریف حکومت سازی کے لئے شہباز شریف کے موقف کے خلاف ہیں ، نواز شریف یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت بنانے کے لئے تمام تر کوششیں بوجوہ ناکام رہیں گی اس سلسلہ میں نواز شریف نے شہباز کو ہدایت بھی کر دی ہے ۔

رپورٹ کے مطابق نواز شریف نے شہباز شریف کی طرف سے بیانیہ میں نرمی لانے کی تجویز سے بھی اتفاق نہیں کیا جس کا اظہار گزشتہ روز پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی اور نو منتخب ارکان اسمبلی کے اجلاس میں شہباز شریف کے قریبی رہنماﺅں نے کیا ۔ شہباز شریف نے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کھل کر واضح کر دیا کہ احتجاج صرف پارلیمنٹ کے اندر ہوگا، سڑکوں، چوراہوں پر احتجاج، شٹرڈاﺅن، توڑ پھوڑ، جلاﺅ گھیراﺅ کی سیاست نہیں کی جائے گی جس پر بعض ہارڈ لائنرز نے تحفظات کا اظہار کیا تو شہباز شریف نے برا منایا۔ رپورٹ کے مطابق مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے دوران شہباز شریف کے قریبی اور ہم خیال رہنماﺅں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں سخت پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے ، دستیاب سیاسی حالات کے مطابق محفوظ راستہ نکالا جائے تاکہ نواز شریف اور مریم نواز کی مشکلات میں کمی ممکن ہوسکے ۔

رپورٹ کے مطابق مرکزی مجلس عاملہ اور مشاورتی اجلاس میں بھی ن لیگ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پارلیمانی نظام کا حصہ ہوتے ہوئے کردار ادا کرنا چاہیے ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مشترکہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کی جائے ، نظام حکومت میں ممکنہ طور پر رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں، مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن عہدہ اور وزیراعظم سمیت دیگر عہدوں پر تحریک انصاف کے مقابلہ میں مشترکہ امیدوار لائے جائیں، جس کی مشاورتی اجلاس میں شریک تمام رہنماﺅں نے تائید کی۔

 

آزاد امیدوار، نیا پاکستان اور پرانی سیاست

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اور عام انتخابات کا سنہرا اور روشن دن گذرا جس دن ملک کی نامور سیاسی جماعتیں انتخابی دنگل میں بھر پور زور آزمائی کرتی نظر آئیں کچھ کے نامزد پہلوان اس سیاسی اکھاڑ ے کے نتیجے میں جیتے اور کچھ کے نامور امیدواروں نے ہار کا سامنا کیا۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے لیے زبردست انتخابی مہم بھی چلائی اور حتمی طور پر ہر مقابلے کی طرح اس سیاسی مقابلے میں بھی ایک جماعت زیادہ سیٹیں حاصل کر کے اب حکومت بنانے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے جبکہ باقی جماعتیں بھی کہیں نہ کہیں اس دوڑ میں صوبائی سطحوں پر موجود ہیں۔

2018کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 116،پاکستان مسلم لیگ ن نے 64، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز نے 43 اور آزاد امیدواروں نے 12 نشستیں حاصل کیں اب نئے پاکستان میں حکومت بنانے کے لیے سابق تمام انتخابات کی طرح آزاد امیدواروں کی طاقت کو ہر سیاسی جماعت حکومت بنانے کے لیے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش میں پرانے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ماضی میں بھی حکومتوں کی تشکیل کے لیے آزاد امیدوار اہمیت کے حامل رہے ہیں مگر ان آزاد جیتے ہوئے امیدواروں کو سیاسی جماعتوں کا اپنے ساتھ ملانے کا عمل خاصہ دشوار ہوا کرتا ہے۔

آزاد امیدواروں کو پارٹی منشور دکھا کر ان کو اپنے ساتھ ملانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے مگر اس سارے عمل کا ایک تاریک پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ امیدوار جب کسی پارٹی کے ساتھ مل جانے کا عہد کر لیتے ہیں تو ان کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام جماعتیں ان آزاد امیدواروں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرتی بھی نظر آتی ہیں ، جیسے کہ افواہیں پھیلا دی جاتی ہیں کہ فلاں امیدوار نے روپوں کے لالچ میں آکر اپنی وفاداری فلاں جماعت کے سپرد کر دی یا یہ کہ امیدوار نے کسی سرکاری عہدہ کے لالچ میں اپنا حاصل کردہ مینڈیٹ فروخت کر دیا وغیرہ وغیرہ۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان آزاد امیدواروں کا کچھ صورتوں میں حکومت سازی کے لیے کسی ایک جماعت کے ساتھ مل جانا حکومت سازی کے عمل اور اکثریتی جماعت کے لیے بے حد ضروری امر ہے۔اس بار عام انتخابات میں جن آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ان کے بارے میں ایک مختصر سا تعارف اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے قومی اسمبلی کے حلقہ 13سے صالح محمد آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اس سے پہلے صالح محمد 2013کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 34سے خیبر پختونخوا اسمبلی کے ممبر رہے اور امسال 109282ووٹوں کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہونے والے صالح محمد نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔


آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کے حلقہ 48سے کامیاب ہونے والے محسن جاویدداوڑ پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک لیڈر اور سماجی رہنما ہیں انہوں نے 16415ووٹ حاصل کرتے ہوئے اپنے مد مقابل متحدہ مجلس عمل اور پاکستان تحریک انصاف امیدواروں کو شکست سے دوچار کیا۔ خیبر پختوخوا سے تیسرے آزاد حیثیت سے جیتے امیدوار این اے 50 سے محمد علی وزیر ہیں محمد علی وزیر بھی پشتوں تحفظ موومنٹ کے ایک رہنما ہیں انہوں نے اپنے مد مقابل آزاد اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں سے وابستہ امیدواروں کو شکست دیتے ہوئے 23530ووٹ حاصل کیے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی تک راہ بناتے آزاد امیدواروں میں زیادہ تعداد صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی ہے ، ان امیدواروں میں قومی اسمبلی کے حلقہ 97سے کامیاب ہونے والے ثناءاللہ خان مستی خیل ،این اے 101سے محمد عاصم نذیر ،این اے 150سےد فخر امام ،این اے 166سے محمد عبدالغفار وٹو ،این اے181سے محمد شبیر علی ،این اے185سے مخدوم زادہ سید باسط احمد سلطان اور این اے 190سے محمد امجد فاروق خان کھوسہ شامل ہیں۔

این اے 97 سے کامیاب ہونے والے ثناء اللہ مستی خیل نے 120729 ووٹ حاصل کرتے ہوئے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو پچھاڑا، ثناءاللہ خان مستی خیل اس سے پہلے قومی اور صوبائی نشستوں پر اسمبلیوں کے ممبر رہے ، 2002 میں پاکستان مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ 2008 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ این اے 101 کے کامیاب آزاد امیدوار محمد عاصم نذیر 2002سے 2018 تک لگاتار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے آئے ہیں 2002میں محمد عاصم نذیر پاکستان مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ایوانوں تلک پہنچے۔
اس کے بعد 2008میں ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ ق کے ہی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بنے جبکہ 2013 میں محمد عاصم نذیر نے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور اپنے مد مقابل مسلم لیگ ق کے امیدوار کو شکست سے دوچار کر کے ایک بار پھر قومی اسمبلی میں اپنی نشست پکی کرلی امسال آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں اترے اور 147812ووٹ حاصل کرتے ہوئے ایک بار پھر رکن قومی اسمبلی بنے۔
سید فخر امام پاکستان کی قومی اسمبلی کے گیارہویں سپیکر بھی رہے ایک طویل سیاسی ماضی کے حامل سیاستدان امسال عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ 150سے آزاد حیثیت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں سید فخر امام اپنے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار رضا حیات ہراج کے مقابلے میں 101396ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔
این اے 166سے عبدالغفار وٹو 101811ووٹ لے کر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سید محمد اصغر کو ہراتے ہوئے قومی اسمبلی کو رن قرار پائے۔ صوبہ سندھ سے صرف دو آزاد امیدوار قومی اسمبلی تک پہنچ پائے جن میں این اے 205سے علی محمد خان مہر اور این اے 218سے علی نواز شاہ شامل ہیں۔
جبکہ صوبہ بلوچستان سے صرف ایک امیدوار آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہونے والے اسلم خان بھوتانی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 2002میں اپنے ضلع لسبیلا سے ممبر صوبائی اسمبلی بلوچستان منتخب ہو کر کیا اس کے بعد 2008سے2012تک بطور سپیکر بلوچستان اسمبلی خدمات انجام دیں اور امسال عام انتخابات میں دو سیاسی جماعتوں کے سربراہان جام کمال خان بلوچستان عوامی پارٹی اور اختر مینگل بلوچستان نیشل پارٹی کو شکست سے دوچار کر کے این اے 272سے کامیاب ہوئے۔
پنجاب سے 7 ، خیبر پختونخوا سے 3،سندھ سے 2اور بلوچستان سے 1امیدوار نے آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کے ایوانوں میں اپنی آواز کی گونج سنانے کے لیے نا صرف نشستیں حاصل کر لیں بلکہ حکومت بنانے کی دوڑ میں اپنا اہم کردار بھی ظاہر کر لیا ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں حکومت بنانے کے لیے اب ان آزاد امیدواروں کا وزن اپنے پلڑے میں ڈالنے کی خواہاں ہیں اور اس دوڑ میں ان تمام امیدواروں کو اپنے ہم خیال بنانے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔
ملک میں ایک اور عام انتخاب تو پایہ تکمیل کو پہنچ گئے اور اکثریتی جماعت کے نعروں کی گونج میں نیا پاکستان بھی بننے کو ہے مگر اس نئے پاکستان میں بھی آزاد امیدواروں کی اہمیت اور ان کی وفاداریان حاصل کرنے کا عمل پرانے اطوار پر استوار ہوتا نظر آتا ہے ۔سیاسی جماعتوں نے اپنے ان ارکان کو آزاد امیدوارون کو قائل کرنے کے کام پر معمور کر دیا ہے جو جوڑ توڑ ،خریدو فروخت اور افراد کو کسی نہ کسی طریق قائل کرنے کی خصوصیت میں ملکہ رکھتے ہیں ۔
کامیاب ہونے والے ان آزاد امیدواروں میں سے کچھ وہ ہیں جن کو کسی مخصوص یا ان کی مطلوبہ سیاسی جماعت نے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
کچھ وہ ہیں جو کسی جماعت کا ٹکٹ لینے سے انکار کر چکے تھے اور کچھ وہ بھی موجود ہیں جن کا بیان یہ رہا تھا کہ جیت کے بعد وہ یقینا کسی جماعت کے ساتھ اپنی وفاداریان وابستہ کریں گے اور یقینا یہ سب امیدوار کسی نہ کسی جماعت سے منسلک تو ضرور ہوں گے مگر معا ملہ یوں بھی ہے کہ جب یہ امیدوار کسی جماعت سے منسلک ہوں گے تو مخالفین ان پر الزامات کی بوچھاڑ بھی کریں گے ،مگر یہ سب سیاسی اور جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے۔
بات کی جائے اگر سیاسی جماعتوں کی اکثریت پر تو پاکستان تحریک انصاف اس وقت 116قومی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی اکثریتی جماعت ہے پاکستان مسلم لیگ ن 64کے ساتھ دوسری اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز 42نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے اور اگر آزاد امیدواروں کو بھی ایک سیاسی جماعت یا سیاسی گروپ ہی مان لیا جائے تو یہ گروپ 12 نشستوں کے ساتھ ناصرف چوتھی پوزیشن پر کھڑا ہے بلکہ 5 مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد یعنی ایم ایم اے جس میں جماعت اسلامی،جمیعت علماءاسلام ف،جمیعت علماءاسلام پاکستان ،اسلامی تحریک اورمرکزی جمیعت اہلحدیث شامل ہیں کے برابر مقام پر موجود ہے اور یہ امر ان آزاد اراکین اسمبلی کی اہمیت میں چار چاند لگاتا ہے اور حکومت کی تشکیل میں ہونے والی کھینچا تانی میں ان آزاد امیدواروں کے اہم کردار کو بھی وضع کرتا ہے۔
صوبائی اسمبلیوں میں آزاد امیدواروں کی کامیابی کے اعداد و شمار مندرجہ ذیل ۔
پنجاب؛
صوبہ پنجاب سے کامیاب ہونے والے 29 آزاد امیدواروں میں پی پی 7 کی نشست پر راجہ صغیر احمد 44287 ووٹ، پی پی 10 سے چوہدری نثار علی خان 53145 ووٹ، پی پی 39 سے لیاقت علی 31086 ووٹ، پی پی 46 سید سعید الحسن 37349 ووٹ ، پی پی 67 سے ساجد احمد خان 60099 ووٹ ، پی پی 89 سے امیر محمد خان 63197 ووٹ، پی پی 83 سے ملک غلام رسول سنگھا 68959 ووٹ، پی پی90 سے سعید اکبر خان نوانی 59350 ووٹ، پی پی 93سے تیمور علی لالی47986 ، پی پی 97سے محمد اجمل 42273 ووٹ، پی پی 106سے عمر فاروق 49272 ووٹ، پی پی 124 سے محمد تیمور خان 32110 ووٹ، پی پی 125 سے فیصل حیات جبوانہ 50913 ووٹ، پی پی 126 سے مولانا معاویہ اعظم 65212 ووٹ، پی پی 127 سے مہر محمد اسلم 27399 ووٹ، پی پی 184سے سیدہ میمنت محسن 44443 ووٹ، پی پی 203 سے سید خاور علی شاہ 48645 ووٹ، پی پی 204سے سید حسین جہانیاں گردیزی 33688ووٹ، پی پی 217سے محمد سلمان 35294ووٹ، پی پی 237 سے فدا حسین 56411 ووٹ، پی پی 238 سے شوکت علی 47192 ووٹ، پی پی 275 سے خرم سہیل خان 28573 ووٹ، پی پی 277 سے میاں علمدار عباس 28332ووٹ، پی پی 280سے ملک احمد علی 37620 ووٹ، پی پی 282سے محمد طاہر 37607 ووٹ، پی پی 284سے سید رفاقت علی گیلانی 33005 ووٹ، پی پی 288 سے محمد عطاءخان کھوسہ 39396 ووٹ اور پی پی 289سے محمد حنیف 35389ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

خیبر پختون خواہ:
خیبر پختون خواہ کی بات کی جائے تو پی کے 25 کوہستان سے محمد دیدار آزاد حیثیت سے انتخابات کا حصہ بنے۔ ان سمیت دیگر تین امیدواروں کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع تھی۔ ان امیدواروں میں محمد ادریس کا تعلق متحدہ مجلس عمل ، اسد اللہ قریشی کا تعلق قومی وطن پارٹی اور شیریں گل خان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا۔ انتخابات کے نتیجے میں محمد دیدار 6720 ووٹ لے کر سر فہرست رہے۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل سے محمد ادریس 4799 ، قومی وطن پارٹی سے اسد اللہ قریشی 2262 اور پاکستان تحریک انصاف سے شیریں گل خان 2127 ووٹ لے کر پیچھے رہیں۔
پی کے 26 کوہستان سے عبدالغفار بھی آزاد امیدوارکی حیثیت سے انتخابی دنگل کا حصہ بنے اور 17087 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ اس حلقے میں دلچسپ بات یہ تھی کہ جن دو امیدواروں میں کانٹے کے مقابلے کی توقع تھی وہ دونوں آزاد امیدوار تھے ۔ دوسرے آزاد امیدوار کا نام افسر تھا جو 11312 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔

پی کے 27 کولئی کوہستان سے دو امیدوار وں میں دلچسپ مقابلے کی امید تھی جن میں عبید الرحمان آزاد امیدوار اور محمد اقبال خان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا۔ انتخابات کے نتائج میں مفتی عبید الرحمان 4629 ووٹ لے کر مقابلہ جیت گئے جبکہ محمد اقبال خان 2805 ووٹ لے دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 42 ہری پور کے انتخابات کی بات کی جائے تو یہاں بھی دو آزاد امیدواروں میں کانٹے کے مقابلے کی توقع تھی ۔ انتخابی دنگل کے نتیجے میں فیصل زمان 32833 ووٹ لے کر گوہر نواز خان کو چت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ گوہر نواز خان فیصل زمان کے مقابلے میں 24092 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔


خیبر پختون خواہ میں ڈیرہ اسماعیل خان وہ آخری حلقہ تھا جہاں صوبائی اسمبلی کی نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ اگر خیبر پختون خواہ میں آزاد امیدواروں کے درمیان سب سے بڑے کانٹے کے مقابلے کی توقع تھی تو وہ پی کے 95 ڈیرہ اسماعیل خان ہی تھا، جہاں ایک طرف احتشام جاوید اور دوسری جانب سید کاظم شاہ تھے۔ انتخابی نتیجے کے مطابق احتشام جاوید 44228 ووٹ لے کر سید کاظم شاہ پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہوئے۔جبکہ سید کاظم شاہ 39199 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
بلوچستان:
بلوچستان کے حوالے سے بات کی جائے تو خیبر پختون خواہ کی طرح یہاں بھی پانچ آزاد امیدوارژوب، دکی، بارخان، چاغی اور شہید سکندرآباد سے صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ پی بی 2 ژوب سے مٹھا خان کاکڑ 16003 ووٹ لے کر مقابلہ جیت گئے۔ پی بی 5 دکی سے مسعود علی خان بغیر کسی کانٹے کے مقابلے کے با آسانی 13322 ووٹ لے کر انتخابات جیت گئے۔
پی بی 8 بارخان سے بلوچستان اسمبلی کی نشست کے لئے سب سے بڑا کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ جہاں سردار عبدالرحمان کھیتران کا مقابلہ نیشنل پارٹی کے عبدالکریم سے تھا۔ انتخابی نتائج میں صرف 154ووٹوں کے فرق سے سردار عبدالرحمان کھیتران عبدالکریم سے سبقت لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ سردار عبدالرحمان کھیتران 18271 جبکہ عبدالکریم 18117 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔

پی بی 34 چاغی سے محمد عارف 24593 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
پی بی 36 شہید سکندرآباد کی بات کی جائے تو دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں سے زہری خاندان کے دو بھائی ایک ہی نشست پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوئے۔ ان میں میر نعمت اللہ زہری آزاد حیثیت سے انتخابات کا حصہ بنے جبکہ ان کے بھائی میر ظفر اللہ خان زہری بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) سے اس الیکشن کا حصہ بنے۔ انتخابات کے نتیجے میں میر نعمت اللہ زہری 10962 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ میر ظفر اللہ خان زہری 9964 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
سندھ؛
صوبہ سندھ میں صوبائی سطح پر کوئی بھی امیدوار کامیاب نہ ہو سکا ۔