Breaking News

شور کورٹ کا جیدی اور اسلام آباد کا فاروق اقدس جب مے 1994 مے اسلام آباد آیا تو مے منیر پلازہ اور جیدی اقبال پلازہ میں رھتا تھا جیدی اس وقت نیوز مے تھا فاروق اقدس کی تحریر جیدی کے بارے میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے

‘‘شورکوٹ کا جیدی’’

جیدی سے ملاقات کیلئے موٹرے وے سے گھر تک رسائی کی راہنمائی فون پر ان کے بھائی طارق نے کی ۔ چھوٹے سے کمرے میں جیدی نے ہمیں دیکھتے ہی نعرہ لگایا’’بس میرا ویر آیا میں ٹھیک ہوگیا واں ‘‘پھر اس نعرے کی گردان شروع کردی اور Thumbs up بنانا شروع کردیا۔ فون پرروانی سے گفتگو کرنے والے جیدی کی زبان لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔شاید اس نے میری ملاقات کے وعدے کو محض رسمی سمجھا تھا اور اب میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ جیدی ہمیشہ کی طرح بغلگیرہونا چاہ رہا تھا اوراس نے چارپائی سے اٹھنے کی کوشش کی تو لفظوں کے ساتھ ساتھ خود بھی لڑکھڑا گیا۔ میں نے خود اس کی اوراپنی بھی خواہش پوری کرتے ہوئے سینے سے لگایا توکچھ لمحوں کیلئے ضبط کابندھن ٹوٹ گیا۔ کمرے میں نہ تو اے سی تھا اور نہ ہی ٹی وی ، شورکوٹ میں گرمی کی حدت اورشدت کا اندازہ اسلام آباد سے جانے والوں کو زیادہ ہوتا ہے۔ مقامی لوگ تو اس کے عادی ہوتے ہیں۔ جیدی کو اس بات کا احساس تھا کہنے لگا ڈاکٹرز نے سختی سے منع کیا ہے کہ اے سی کی مصنوعی ٹھنڈک تمہارے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ٹی وی میں نے خود یہاں سے ہٹوا دیا ہے۔ کیونکہ آج کل ٹی وی پر بالخصوص کرنٹ افیئرز کے پروگراموں میں جوکچھ ہورہا ہے۔ وہ میری بیماری میں اضافے کا باعث ہوسکتا ہے۔
دوستو۔۔۔ جاوید جسے ہم پیار سے جیدی کہتے ہیں اسے ایک سال قبل فالج کے حملے کا سامنا کرنا پڑا جس باعث اس کا دایاں حصہ مفلوج ہوگیا اور وہ خاموشی سے اپنے گھر شورکوٹ شفٹ ہوگیا۔ اپنے مزاج اور بے نیازی کے رویوں کے پیش نظر نہ کسی کو اطلاع دی اور نہ اخباروں میں خبریں شائع کرائیں۔ شورکوٹ میں ’’صحافتی کمیونٹی‘‘ رائو خالد، سمیع ابراہیم طارق اورغلام محی الدین کے ایک مشترکہ دوست اشفاق جن کا تعلق شورکوٹ سے ہے اور جن کے گھروں کے فاصلے قریب قریب ہیں۔ کافی عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ انھوں نے چند دن پہلے جیدی کے ذکر پربتایا کہ وہ بیمار ہے۔ فوراً جیدی سے رابطہ ہوا تو صورتحال کا علم ہوا اور اسی وقت خود سے یہ وعدہ کیا کہ جتنی جلدی ممکن ہوسکاجیدی سے ملاقات کرنی ہے۔ جیدی اسلام آباد کی صحافتی کمیونٹی میں ایک مقبول، پسندیدہ شخص ہے۔ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں پیار کرتے ہیں اور اپنی محفلوں میں اس کا انتظار بھی کرتے ہیں لیکن وہ اپنی وضع کا ایک منفرد شخص ہے۔ اسے صحافتی قلندر کہہ لیں ۔۔۔ ادبی مجذوب کہہ لیں یا اسی طرح کا کوئی اور نام دے دیں۔ وہ اپنی طرز زندگی اور اپنے رویوں سے ان پرپورا اترے گا۔ جیدی 80 کی دہائی میں اسلام آباد منتقل ہوا تھا۔ اس تمام عرصے میں اس نے صحافت ہی کی یا پھر شاعری اورکرائے کے گھروں میں رہا۔ اہم اخبارات اورچینلز میں کام کیا لیکن ’’کمرشل صحافت‘‘اسے چھو کر نہیں گزری۔ کیونکہ کسی بھی شعبے میں بددیانتی اس کے خمیر میں ہی شامل نہیں تھی اور وہ ضمیر کی آواز پر روزگار کرتا تھا اورضمیر ہی کی آواز پر بے روزگار ہوجایا کرتا تھا۔ وہ بنیادی طورپر انگلش جرنلزم کا بندہ ہے۔ ’’فرنٹیئر پوسٹ‘‘، ’’دی نیشن‘‘۔ اور بہت سے ٹی وی چینلز میں کا کیا ۔معروف سفارتکار اورصحافی ملیحہ لودھی ان دنوں دی نیوز اسلام آباد کی ایڈیٹر تھیں نصرت جاوید کا شمار ان کے پسندیدہ صحافیوں میں ہوتا تھا چنانچہ انھوں نے نصرت جاوید کو ’’دی نیوز‘‘ میں آنے کی دعوت دی۔ نصرت یاروں کا یار دھڑے باز آدمی ہے ۔ اس نے فرمائش کردی کہ میری ٹیم میرے ساتھ آئیگی۔ چنانچہ نصرت جاوید کی سربراہی میں شکیل انجم،ماریانہ بابر اور جیدی نیشن سے ’’ٹوٹ‘‘ کر دی نیوز میں آگئے۔ لیکن اپنے بھائی طارق کی طرح جیدی کو بھی وفاقی دارالحکومت کی فضا راس نہ آئی۔ اورہمدم دیرینہ پروفیسراشفاق حسین جو سرگودھا یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے منصب پرفائز ہیں نے جیدی کو اپنے پاس بلالیا اوریونیورسٹی میں اسے بعض ذمہ داریاں سونپ دیں اور وہیں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ دی نیوز سے وابستہ اوراسلام آباد پریس کلب کے کرتا دھرتا شکیل انجم وہ پہلے صحافی دوست تھے۔ جو اس واقعہ کے فوری بعد شورکوٹ پہنچے تھے۔ جیدی سے ملاقات تقریباً دو گھنٹے تک رہی۔ اس دوران اسلام آباد کی باتیں ہوئیں۔ مشترکہ دوستوں کو یاد کیا۔ پرانے قصے کہانیاں لیکن اس تمام دورانیے میں نہ تو ہم نے یہ احساس ہونے دیا کہ ہم بیمار کی عیادت کرنے آئے ہیں اور نہ ہی جیدی نےکہ وہ بیمار ہے۔ نہ کسی سے کوئی گلہ نہ شکوہ ، رب کی رضا میں راضی،ہر حال میں خوش۔ لیکن تھوڑی تھوڑی دیر بعد گہری سوچ میں گم ہوجانا اورپھر خود ہی چونک اٹھنا۔ اس کے ساتھیوں نے اسلام آباد میں گھربنالیے انکے بچے مہنگی فیس والے انگریزی سکولوں میں پڑھتے پڑھتے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے یا کاروبار کرنے لگے جنھیں پرتعیش زندگی کی تمام آسودگیاں حاصل کیں لیکن جیدی کیوں ناکام رہا۔؟؟؟؟ شکیل انجم کا کہنا تھا کہ ’’جیدی نے ہمیشہ دوستوں اور ساتھیوں کیلئے آگے بڑھنے کے راستے بنائے لیکن اپنے لیے کوئی رستہ نہ بناسکا‘‘۔ شکیل نے ٹھیک ہی کہا شاید اس لیے آگے بڑھنے کی بجائے وہ الٹے قدموں شورکوٹ کے پرخلوص اورمنافقت سے عاری لوگوں کی گلیوں میں واپس آگیا۔ رخصت ہوتے وقت اسے دیکھ کر ہم نے بھی استقامت کا مظاہرہ کیا اوردوبارہ ملاقات کا وعدہ کیا۔ طاری (طارق) نے باہر تک رخصت کیا۔۔۔۔ کہنا یہ تھا کہ جب کوئی دوست، عزیز، کلاس فیلو دورپار کا رشتہ دار یا پڑوسی کسی دورافتادہ گائوں ، پسماندہ دیہات یا کسی ویرانے میں بوجوہ منتقل ہوجائے ریٹائرڈ لائف گزار رہا ہو یا طویل بیماری نے اسے گھر تک محدود کردیا ہو۔ تو اسے گاہے بگاہے ملنے ضرور جایا کرو۔ وہاں کسی کی آمد سے تتلیاں رقص کرتی ہیں جگنو چمکتے ہیں اور یہ خاموش استقبال آپ کی روح کو راضی کردیتا ہے اور بے شک اللہ کو بھی، ہوسکتا ہے ایسے دوستوں سے آپ کی ملاقات جہاں آپ کی روح کو راضی کرے اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو اور جس کے گھر آپ عیادت یا مزاج پرسی کیلئے گئے ہیں وہ اتنا ’’شاد‘‘ ہو کہ کچھ دیر کیلئے ہی سہی اپنے دکھ اور بیماریاں بھول جائے ۔

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب
No News Found.

سائنس اور ٹیکنالو
No News Found.

اسپیشل فیچرز
No News Found.

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Baadban Tv. All Rights Reserved