وفاقی کابینہ نے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دے دی۔کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ کوئی نیا منظم، مسلح آپریشن نہیں ہوگا۔ پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کو مزید تیز کیا جائے گا، آپریشن عزم استحکام سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں، نقل مکانی کی ضرورت والا آپریشن غلط فہمی ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔ افغانستان سے تیزی کیساتھ پاکستان میں دہشت گردی داخل ہوئی تو متعدد آپریشنز کرنا پڑے۔ان میں اپریشن راہ نجات، راہ حق،اپریشن ضرب عضب، اپریشن رد الفساد شامل تھے۔ان میں سب سے بڑا اور موثر ضرب عضب آپریشن تھا۔2014 میں یہ آپریشن شروع کیا گیا اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد 2016 میں اس کی تکمیل ہو گئی۔اس وقت حالات یہ تھے کہ تحریک طالبان ٹی ٹی پی پاکستان کے ہر ادارے اورہر شعبے میں سرایت کر چکی تھی۔قبائلی علاقوں میں اس کا مکمل کنٹرول تھا اور اس نے اپنی نظامِ شریعت کا نفاذ کیا ہوا تھا۔قبائلی علاقے نو گو ایریاز بن چکے تھے۔حکومتی رٹ زیرو تھی۔دہشت گردوں نے اپنے اسلحہ کے کارخانے قائم کر رکھے تھے۔تربیتی کیمپ بھی بنائے ہوئے تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر ملک میں دہشت گردی کے حملے معمول بن چکے تھے۔ پاکستان کا کوئی شہر دہشت گردی سے محفوظ نہیں تھا۔بسوں ٹرینوں ہوٹلوں گھروں پر خودکش حملے کرنے کے ساتھ ساتھ دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔جی ایچ کیو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر، کامرہ ایئر بیس ،پشاور سرگودھا سمگلی کوئٹہ ایئر بیسز کے ساتھ مہران نیول ایئر بیس پر بھی حملے کیے گئے۔ اورین طیارے تباہ کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ کراچی ایئرپورٹ پر خونریزی کی گئی۔سیکیورٹی اہلکاروں کے بے رحمی سے سر کاٹ کر سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلے گئے۔ حکومت نے اس سب کے باوجود طالبان کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کے لیے مذاکرات کی کوشش کی مگر ان کی غیر سنجیدگی کے باعث مذاکرات کا آپشن مسترد کر کے آپریشن ضرب عضب لانچ کیا گیا۔یہ ایک مشکل فیصلہ تھا جو بہرحال کرنا پڑا۔طالبان کا معاشرے میں ایک خوف تھا لیکن جب آپریشن کا متفقہ فیصلہ کیا گیا تو قوم کی طرف سے خوف کے بت توڑ دیے گئے۔حکومت نے ساری پارٹیوں کو آن بورڈ کیا تھا۔آپریشن میں قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے۔ اسلحہ ساز فیکٹریوں اور تربیت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ان علاقوں سے طالبان کا قبضہ ختم کر دیا گیا۔اکثر طالبان نے راہ فرار اختیار کی اور افغانستان چلے گئے جبکہ کچھ پاکستان کے علاقوں میں جہاں سینگ سمایا،چھپ گئے۔ ان کی طرف سے موقع بہ موقع دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی رہتی تھیں۔مگر ان میں پہلے جیسی شدت تھی اور نہ ہی تسلسل تھا۔ آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کی کمر ضرور ٹوٹ گئی مگر لاکھوں بے گھر ہونے والے لوگ آج بھی پہلے کی طرح آباد نہیں ہو سکے،انفراسٹرکچر کی بحالی بھی نہ ہوئی۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے باعث پاکستان بدترین دہشت گردی کا نشانہ بن گیا جس میں پاکستان کو ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکہ نے اگر اس نقصان کی تلافی اور ادائیگی کی ہوتی تو انفراسٹرکچر کی تعمیر اور بے گھر ہونے والوں کی بحالی آسانی سے ہو جاتی۔2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت معرض وجود میں آئی۔اس کے بعد مفرور طالبان کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔ ان کی طرف سے پاکستان میں حالات خراب کیے جانے لگے۔ افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے بعد طالبان اقتدار میں آئے تو امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان کے ساتھ تعاون کریں گے مگر وہاں ڈویلپمنٹ کے لیے بھارت کو لا بٹھایا گیا لہٰذا افغانستان کی سرزمین بدستور پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ ادھر ایران کو بھی بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کرتا چلا آرہا تھا۔ اب ایران کی طرف سے چاہ بہار بندرگاہ کا کنٹرول 10 سال کے لیے بھارت کے حوالے کیا گیا ہے۔جس سے پاکستان میں دہشت گردی کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند دہشت گردی میں ملوث ہیں۔مذہبی شدت پسند بھی خونریزی سے گریز نہیں کر رہے۔ ان کا سب کا پشت پناہ بھارت ہے جو پاکستان میں مداخلت کے لیے ایران اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں قائم کیے گئے سلیپنگ سیل بھی بروئے کار لاتا ہے۔ آج دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے قوم کے اتحاد کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے حکومت آپریشن عزم استحکام لانچ کرنا چاہتی ہے۔ آج حالات 2014 ء کی طرح مخدوش نہیں ہیں کہ ضرب عضب کی طرز پر آپریشن کیا جائے۔اس کی وضاحت حکومت کی طرف سے کی جا چکی ہے۔وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس کے دوران اس پر بات کی ہے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کی نوعیت آپریشن ضرب عضب یا رد الفساد جیسی نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی پارٹیوں کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔ ضرب عضب سے مقامی باشندوں کو نقل مکانی کی صورت میں بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی تھی جس کے ایک بار پھر وہ متحمل نہیں ہو سکتے تاہم عزم استحکام آپریشن وقت کی ضرورت ہے اس پر قومی اتفاق رائے ناگزیر ہے ورنہ دہشت گرد پھر کچھ علاقوں پر مسلط ہو سکتے ہیں۔کچھ پارٹیاں تحریک انصاف سمیت اس آپریشن کی مخالفت کر رہی ہیں۔حکومت ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے۔امید کی جانی چاہیے کہ یہ پارٹیاں پیپلز پارٹی کی طرح تحفظات کے باوجودِ آپریشن کی حمایت کریں گی۔اپریشن میں صرف دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کیا جائے تو متعلقہ علاقوں کے شہریوں کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو گی۔ صدر زرداری کے اس مشورے کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ ہتھیار ڈالنے والے بلوچ قوم پرستوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جائے۔ ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لئے دہشت گردی کا مکمل تدارک بہرحال ہماری ضرورت ہے۔