جماعت اسلامی نے جمعے کو اسلام آباد میں مہنگائی، ٹیکسوں، بجلی کے بلوں اور ظالمانہ ٹیرف کے خلاف دھرنا دے دیا۔وفاقی حکومت اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے جماعت اسلامی کو ڈی چوک کی جانب مارچ اور دھرنے کی اجازت نہیں دی،

جماعت اسلامی نے جمعے کو اسلام آباد میں مہنگائی، ٹیکسوں، بجلی کے بلوں اور ظالمانہ ٹیرف کے خلاف دھرنا دے دیا۔وفاقی حکومت اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے جماعت اسلامی کو ڈی چوک کی جانب مارچ اور دھرنے کی اجازت نہیں دی، اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی راستوں پر کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کر دی گئیں جس کی وجہ سے کارکنان نے تین بڑے مقامات لیاقت باغ، فیض آباد اور 26 نمبر چونگی کی مرکزی شاہراہوں پر دھرنے دے دئیے تاہم ضلعی انتظامیہ سے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد جماعت اسلامی کو مری روڈ پر دو سے تین روز تک پُرامن دھرنا جاری رکھنے کی مشروط اجازت مل گئی۔وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے مذاکرات کی پیشکش بھی کر دی جسے امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے قبول کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری بااختیار کمیٹی بنائے اور اگر حکومت ریلیف دینے کی بات کرے گی تو پھر بات آگے بڑھے گی، دھرنا ایک ماہ چلے یا اِس سے بھی زیادہ وہ تیار ہیں،پانی سر سے گزر چکا،مراعات یافتہ طبقے کو اپنی مراعات چھوڑنا ہوں گی۔اُن کا کہنا تھا کہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرنے والا کسی اور کا ایجنٹ تو ہو سکتا ہے مگر ملک اور پارٹی کا وفادار نہیں ہو سکتا۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ عوام کو ریلیف ملنے تک احتجاج جاری رہے گا، بجلی بلوں پر ریلیف لئے بغیر وہ واپس نہیں جائیں گے۔انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر(آئی پی پیز) سے متعلق اُنہوں نے کہاکہ 80 فیصد مالکان پاکستانی ہیں،اُن سے بات کر کے معاہدوں پر نظرثانی کرنا ہو گی،یہ چند سرمایہ داروں کی کمپنیاں ہیں جو قوم کو لوٹ رہی ہیں، کپیسٹی چارجز اور پٹرول کی لیوی برداشت نہیں کریں گے، بجلی کے بلوں نے بے کس عوام کی کمر توڑ دی ہے، حالات اُس نہج کو پہنچ چکے ہیں کہ سگے بھائی ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ دھرنے کی وجہ سے راستے بند ہو گئے اسلام آباد، راولپنڈی میں دن بھر نظامِ زندگی درہم برہم رہا،ملحقہ علاقوں میں بھی ٹریفک کا نظام مفلوج رہا، گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ر ہیں۔ جماعت اسلامی مُصر ہے کہ اگر اِس کے مطالبات نہ مانے گئے تو احتجاج کا یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیل جائے گا۔ملک میں اِس وقت بجلی کی بڑھتی قیمتیں ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہیں،بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے بارے میں گزشتہ ہفتے سابق نگران وفاقی وزیر برائے تجارت گوہر اعجاز نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا عام کیا جائے، قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی؟انہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں اور ادائیگیوں پر کڑی تنقید بھی کی تھی۔اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران آئی پی پیز کو 1.95 ٹریلین روپے کی ادائیگیاں کی گئیں جو کہ غلط معاہدات اور بدانتظامی کا نتیجہ ہیں۔اِن معاہدوں نے صارفین کے لئے بجلی کی قیمتوں میں بے حد اضافہ کیا ہے، کچھ بجلی گھر حکومت کو 750 روپے فی یونٹ تک بجلی فروخت کر رہے ہیں جبکہ کچھ کوئلے کے پلانٹس اوسطاً 200 روپے فی یونٹ جبکہ ہوا اور شمسی توانائی پلانٹس 50 روپے فی یونٹ سے زیادہ کی قیمت پر بجلی بیچ رہے ہیں۔ گوہر اعجاز نے اِن معاہدوں کی غیر مؤثر کارکردگی کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی پی پیز کو کم صلاحیت پر چلتے ہوئے بھی بھاری رقوم ادا کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے ”کیپیسٹی ادائیگیوں“ کی شق پر بھی تنقید کی جس کی وجہ سے آئی پی پیز بجلی پیدا نہیں کر رہے لیکن پھر بھی اُنہیں پوری ادئیگی کی جا رہی ہے۔ گوہر اعجاز نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اِن معاہدوں کو نہ صرف مذاکرات کے ذریعے دوبارہ طے کیا جائے اور تمام آئی پی پیز کو مرچنٹ پلانٹس کے طور پر رکھا جائے تاکہ بجلی صرف سستے فراہم کنندگان سے خریدی جائے۔سابق وفاقی وزیر نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ اِن غیر منصفانہ معاہدوں کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ ملک کو مزید مالی بوجھ سے بچایا جا سکے۔اُن کا مطالبہ تھا کہ بجلی کی اصل قیمت 30 روپے فی یونٹ سے کم ہونی چاہیے،آئی پی پیز کے نتیجے میں پاکستان میں عوام کو بجلی کا ایک یونٹ 65 روپے کا پڑ رہا ہے جس میں ہرایک دو روز کے بعد اضافہ ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں گھریلو صارفین کو بجلی کا ایک یونٹ 1 اعشاریہ 50 پاکستانی روپے میں پڑ رہا ہے اور بھارت میں گھریلو صارفین کو ایک یونٹ چھ سے نو روپے کے درمیان پڑتا ہے جبکہ کمرشل یونٹ کی قیمت 10 سے 20 روپے متعین کی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک گھریلو یونٹ کی قیمت کم و بیش 20 روپے پاکستانی ہے،مذکورہ اعداد و شمار کے حساب سے جنوبی ایشیاء میں سب سے مہنگی بجلی پاکستان میں ہے۔ بجلی کے بھاری بل ادا کرنا عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہو چکا ہے، بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ اُن کا بِل آ جاتا ہے۔تنخواہ دار طبقہ بجلی کے علاوہ ٹیکس کے بوجھ تلے بھی دبا ہوا ہے، پاکستان بزنس کونسل نے دو روز قبل ایک اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کی آمدنی پر ٹیکس بھارت سے 9.4 گنا زائد ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام کا معیارِ زندگی ابتر ہو گیا ہے، ہر کوئی ڈیپریشن کا شکار ہے، بھائی بھائی کا دشمن ہو رہا ہے، کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ اشرافیہ کی مراعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اِس وقت ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ بجلی اور مہنگائی پر قابو پایا جائے، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے اِس وقت گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں، جماعت اسلامی احتجاج کی راہ پر چل پڑی ہے، پُرامن احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے، حکومت نے مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے جسے جماعت اسلامی نے قبول بھی کر لیا ہے۔تمام فریقین کو مل بیٹھ کر اِس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے،جائز مطالبات کو مان لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ کیپسٹی ادائیگیوں سے نجات حاصل کرنے پر غور کرے، کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کرے جس سے سب کے لئے آسانی ہو جائے۔حکومت کو عام آدمی کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے بصورت دیگر معاملات مزید بگڑیں گے اور زندگی مشکل ہوتی چلی جائے گی۔ہ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو گھر بیٹھے گزشتہ 10 برس سے سستی گیس کی مد میں ماہانہ قریباً 19 ارب روپے کی سبسڈی مل رہی ہے جو سالانہ 232 ارب روپے بنتی ہے۔ گزشتہ 10 برس میں ٹیکسٹائل مل مالکان کو سستی گیس کی مد میں دی گئی رعایت 2320 ارب روپے (9 ارب ڈالر) بنتی ہے۔ قریباً اتنا ہی حکومت نے پچھلے 10 برس میں آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے۔سما ٹی وی پر اپنے ٹاک شو میں ابصار عالم نے کہا کہ گوہر اعجاز ٹیکسٹائل ٹائیکون، بزنس لیڈر اور سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔انہوں نے پاکستان میں مہنگی بجلی کے معاملے کو ہائی لائٹ کیا ہے، اپنی ایکس پوسٹس میں انہوں نے بجلی کے بلوں میں اضافے کی اصل وجوہات کا انکشاف کیا اور بتایا کہ بجلی کے کارخانے چلانے والے امیر ترین افراد اور کمپنیاں کس طرح عوام کو لوٹ رہی ہیں۔ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اعجاز گوہر نے بہت اچھا کام کیا، ڈیٹا بھی شیئر کیا، اگرچہ یہ کام وہ حکومت رہتے ہوئے نہیں کر پائے تھے، اس کی جو بھی وجہ ہو لیکن اس کا فائدہ عوام کو ہوگا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اس لوٹ مار کا حساب لینے کے لئے سپریم کورٹ جا رہے ہیں اور اپنے پیسے سے فرانزک آڈٹ بھی کروائیں گے۔ 40 آئی پی پیز مالکان کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے حالانکہ 101 افراد نے بجلی کے کارخانے لگائے تھے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعجاز گوہر صرف 40 کے خلاف کیوں عدالت جا رہے ہیں۔ اعجاز گوہر کا موقف درست ہے لیکن وہ آدھا سچ بتا رہے ہیں اور آدھا چھپا رہے ہیں جو ٹیکسٹائل ملز مالکان کے بارے میں ہے، کیونکہ وہ خود بھی ٹیکسٹائل مل کے مالک ہیں۔ کیا ان کے منتخب کردہ 40 آئی پی پیز مالکان میں وہ ٹیکسٹائل ملز مالکان بھی شامل ہیں جنہوں نے کیپٹیو پاور پالیسی کے تحت پاور پلانٹس لگائے پھر بجلی بیچی اور سستی گیس کی مد میں حکومت سے 2320 ارب روپے (9 ارب ڈالر) کی رعایت بھی حاصل کی۔ اس رعایت کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے آئی پی پیز کے علاوہ کیپٹیو پاور پلانٹس مالکان کے ساتھ بھی معاہدہ کیا تھا۔ ٹیکسٹائل ملز مالکان کا دعوی ٰ تھا کہ ہمیں سستی گیس فراہم کریں، جس سے ہم بجلی بنا کر سستی اشیا تیار کریں گے اور عالمی منڈی پر ان اشیا کی قیمت کم ہونے پر ہمیں کثیر زرمبادلہ حاصل ہوگا۔مذکورہ معاہدہ قریباً 10 برس قبل 2012- 13 میں ہوا تھا۔ اس دوران تمام بڑے ٹیکسٹائل ملز مالکان کو سستی گیس کی مد میں 1300 سے 1600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو والی گیس 686 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں فراہم میں گئی۔ حکومتی پاور پلانٹس کو بھی یہ گیس ایک ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں دی جاتی تھی۔ٹیکسٹائل ملز مالکان کو گھر بیٹھے سستی گیس کی مد میں ماہانہ قریباً 19 ارب روپے کی سبسڈی ملتی رہی جو سالانہ 232 ارب روپے بنتی ہے۔ گزشتہ 10 برس میں ٹیکسٹائل مل مالکان کو سستی گیس کی مد میں دی گئی رعایت 2320 ارب روپے بنتی ہے، یعنی 9 ارب ڈالرز روپے کا فائدہ۔ اتنا ہی حکومت نے پچھلے 10 برس میں آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ اس دوران برآمدات بھی نہیں بڑھیں۔کیا سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز 40 آئی پی پیز مالکان کی طرح ان ٹیکسٹائل ملز مالکان کو بھی سپریم کورٹ میں لیکر جائیں گے۔

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

سائنس اور ٹیکنالوجی

ڈیفنس

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Baadban Tv. All Rights Reserved