قیام پاکستان کے وقت جنگلات کا رقبہ 9.8 فیصد تھا جو مسلسل کم ہو کر اس وقت 4.779 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ رقبہ 2010ءمیں 5.310 فیصد تھا۔ 2015 ءمیں 5.101 فیصد اور 2020ءمیں 4.833رہ گیا۔جبکہ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی ہدایات کے مطاق کسی بھی ملک میں جنگلات 12 فیصد سے کم نہیں ہونے چاہئیں۔ جنگلات ماحولیاتی کثافت کو کم کرتے اور ایکوسسٹم کی حفاظت کرتے ہیں۔ سیلاب سے شہروں کو بچاتے ہیں کیونکہ دریا کے اطراف میں درختوں کی موجودگی کی وجہ سے سیلابی پانی کے کٹاﺅ سے زمین کی حفاظت ہوتی ہے۔ جنگلات زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے روکتے ہیں اورگلوبل وارمنگ کے مضر اثرات سے بچاتے ہیں۔ ہوا کو صاف کرکے آکسیجن کی مقدار بڑھاتے ہیں اوربارشیں برسانے میں بھی مدد دیتے ہیں۔امریکہ میں جنگلات 33 فیصد رقبہ پرہیں اور ہندوستان میں جنگلات کا رقبہ 21.71 فیصد ہے۔ جس کے مقابلے میں جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے۔ ہمارے ملک میں جنگلات صرف 4.779 فیصد رقبہ پر ہیں۔ دنیا میں بیشتر ممالک میں آبادی کے تناسب سے جنگلات کا رقبہ بڑھتا ہے۔ کیونکہ لوگوں میںزیادہ سے زیادہ درخت لگانے کا رُجحان ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے آبادی میں اضافہ کے تناسب سے جنگلات کا رقبہ کم ہو رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لوگ لکڑی کو جلانے اور عمارتوں میں استعمال کرنے کے لئے درختوں کو مسلسل کاٹ رہے ہیں۔ 1970ءکی دہائی میں مجھے آزاد کشمیر میں ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں نیلم ویلی کا کئی بار دورہ کرنے کا موقع ملا۔ نیلم ویلی میں اگرچہ کافی جنگلات تھے لیکن دریائے نیلم کے اس پار مقبوضہ کشمیر میں اتنے زیادہ گھنے جنگلات تھے کہ ہندوستان کی کئی بٹالین آسانی سے چھپ سکتیں تھیں۔ آزاد کشمیر کے مقامی باشندوں نے بتایا کہ اکثر ہندوستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوتی رہتی ہیں۔ جس سے ہمارا نقصان زیادہ ہوتا ہے چونکہ مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں آزاد کشمیر میں جنگلات زیادہ گھنے نہیں ہیں۔اَب صورت حال بہت ہی تشویناک ہے کیونکہ ٹمبر مافیا نے غیر قانونی طورپر بے شمار درخت کاٹ دیئے ہیں اور دفاعی اعتبار سے آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں غیر محفوظ ہوگیا ہے۔ اس بات کی اشہد ضرورت ہے کہ نہ صرف غیر قانونی طور پر درختوں کوکٹنے سے بچایا جائے۔ بلکہ مزید درخت لگائے جائیں اور حکومتی سطح پر جنگلات اُگانے کے پروگرام شروع کئے جائیں۔پاکستان میں چونکہ پانی کی کمی ہے اس لئے ایسے درخت لگائے جائیں جو کم سے کم پانی میں اُگ سکیں اوردوسری اہم بات یہ ہے کہ ایسے درخت لگائے جائیں جو تیزی سے بڑھتے ہوں اور کم سے کم وقت میں تن آور درخت بن سکیں۔جگہ بھی کم گھیرتے ہوں اور سیدھے اُگتے ہوں۔سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کو چاہئے کہ برسات کے موسم میں شجرکاری کی مہم کے دوران لوگوں کو سوہانجنا (Moringa) درخت لگانے کی ترغیب دیں۔ جن میں یہ تمام خصوصیات ہیں۔ سوہانجنا ایک کرشماتی درخت ہے جو بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ یہ ایسا درخت ہے جو کم سے کم پانی میں اُگ جاتا ہے اور ایک سال میں مکمل تن آوردرخت بن جاتا ہے۔اس درخت کے پتے ، بیج، چھال اور پھلیاں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ غذائیت کے اعتبار سے کوئی درخت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ عالمی خوراک پروگرام کے ادارے نے افریقہ کے قحط زدہ علاقوں میں اس درخت کو بکثرت لگانے کا مشورہ دیا اور اس پر عمل کرکے اِن ممالک نے کئی لاکھ افراد کو موت کے منہ سے نکال لیا۔ کیونکہ اس درخت کے پتے حیرت انگیز طورپر ہر طرح کی غذائیت سے بھرپور ہیں۔ مویشیوں کے چارے کے طورپر استعمال کئے جائیں تو ان کے دودھ دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔انسانوں کے لئے تو یہ درخت ایک قدرتی تحفہ ہے۔ سوہانجنا کے 100 گرام پتوں میں مندرجہ ذیل غذائیت ہوتی ہے۔ -1 پروٹین 9.4 گرام (دہی سے دوگنا)۔-2 پوٹاشیم 337 ملی گرام (کیلے سے تین گنا)۔-3 کیلشیم 185 گرام (دودھ سے چارگنا)۔-4 وٹامن اے 378 مائیکروگرام(گاجر سے چار گنا)۔-5 وٹامن سی 51 ملی گرام (کینو سے سات گنا)۔-6 آئرن 4 ملی گرام (پالک سے نو گنا)۔اس کے علاوہ فاسفورس 112 ملی گرام اور وٹامن بی ون ۔بی ٹو۔بی تھری۔ بی فائیو اور بی نائن بھی پایا جاتا ہے۔ اتنی بے پناہ غذائیت کی وجہ سے سوہانجنا غیر ممالک میں وسیع رقبہ پر اُگایا جاتا ہے اور اس کے پتوں کو سوکھا کر اس کا سفوف امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیاءکے ممالک کیپسول میں بھر کر برآمد کرتے ہیں۔ہندوستان ہرسال اس کی برآمد سے اربوں ڈالر کماتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس درخت کی افادیت کے بارے میں عام لوگوں کو معلومات نہیں ہیں اس لئے اس کی کاشت وسیع پیمانے پر شروع نہیں ہو سکی۔ اگر اس درخت کو محکمہ جنگلات کی سرپرستی حاصل ہو تو ایک بہت وسیع رقبہ پر سوہانجنا کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ جس سے جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کے علاوہ عوام کی غذائی ضروریات پوری ہو سکیں گی اور مویشیوں کی تعداد بڑھنے سے گوشت اور ددھ کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوگی۔