بالآخر بلی تھیلے سے باہر ا گئی ۔۔۔۔ جمیعت علمائے اسلام کے ممبر قومی اسمبلی نور عالم آئینی پیکج لیکر میدان میں نکل ائے
۔۔جبکہ حکومت نے بدنامی اور ناکامی کے خوف سے بچنےکے لیے خود براہ راست آئینی پیکج لانے کی بجائے نور او دانیال چوہدری کے ذریعے مختلف بلز کے ذریعے سپریم کورٹ اور مستقبل کے چیف جسٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی ہے
وہ جلد ناکام ہو جائے گی کیونکہ آئینی تراجم کے لیے حکومت کے پاس مطلوبہ تعداد نہی ہے اور غالباً فیض حمید کی گرفتاری کے بعد بھی عدلیہ اور ججز کو قابو کرنے کا فارمولا ہاتھ نہ ا سکا۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے عدلیہ پہ وار کے لیے نور عالم خان اور دانیال چوہدری کے ذریعے اہم آئینی تراجم کے بل اج کے قومی اسمبلی اجلاس میں غور کے لیے پیش کرا دئیے ہیں۔قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم کی جا رہی ہے جسکے تحت مخصوص نشستوں کی موجودہ قومی اسمبلی اور کے پی کے اسمبلی میں پی ٹی آئی کو فراہمی روکی جا سکے اور سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ بے وقعت ہو جائے جبکہ آئین کے آرٹیکل 59 میں ترمیم کے ذریعے کے پی کے اسمبلی سینٹ کی تاحال خالی نشستوں کی بنیاد پہ دو تہائی اکثریت کی تعداد جو 96 کے ایوان میں 64 بنتی ہے چاہے ایوان کے ممبران کی تعداد پوری نہ ہو سے کم کر کے 85 ممبران سینٹ کی بنیاد پہ 57 کی جا سکے اور کے پی کے سے ایوان بالا کی 11 خالی نشستوں سے قانون سازی اور آئینی ترامیم پہ تیکنیکی اعتراض نہ اٹھ سکے۔وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کو مستقبل میں چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 177 میں ترمیم کے زریعے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے اور ججز کی تقرری بالخصوص اس آرٹیکل سے آئین کے آرٹیکل 175-A حزف کرانے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 175-Aکے تحت سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج جو چیف جسٹس مقرر کرنے کے پابند ہیں اور یہ پابندی آرٹیکل 177 سے حذف کرا کر جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کی کوشش ہے (جو سو فیصد ناکام ہونے کی امید ہے ) اسی لیے یہ اہم ترمیم پرائیویٹ بل کی صورت میں لائی جا رہی ہے ۔۔اور اگر چیف جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن گئے تو بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے آرٹیکل 184 میں بھی ترمیم کر کے از خود نوٹس کے معاملے میں چیف جسٹس کو مزید پابندی عائد کی جائیں گے ۔۔۔ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری کے ضمن میں آرٹیکل 193 اور ماتحت عدالتوں پہ ہائیکورٹ کی نگرانی کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 203 میں بھی ترمیم کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں سرکاری ملازمین کی تقرری کے سپریم کورٹ اور متعلقہ ہائیکورٹ کے اختیارات جو آئین کے آرٹیکل 208 میں درج ہیں میں بھی ترمیم کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اعلی عدلیہ میں حکومت من پسند افراد کا بطور رجسٹرار ، ایڈیشنل رجسٹرار اور دیگر عہدوں پہ تقرر کر سکے۔اسی طرح توہین عدالت قانون میں ترمیم کی کوشش بھی کی جا رہی ہے تاکہ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پہ عملدرآمد نہ کرنے پہ چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجا اور الیکشن کمیشن کے خلاف ممکنہ توہین عدالت کاروائی سے انھیں بچایا جا سکے۔۔۔جبکہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا قانون میں ترمیم کا بل بھی پیش کیا گیا ہے تاکہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر کسی نئے لارجر بینچ کی کہانی بنا کر پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے فیصلے کو بلڈوزر کیا جا سکے ۔الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہونے اور لاہور ہائیکورٹ میں اس پہ سماعت اور اٹارنی جنرل کو 30 اگست کے لیے نوٹس کے بعد اس ترمیم کے کالعدم قرار پانے کے واضح امکانات کے بعد وفاقی حکومت نے نور عالم خان اور دانیال چوہدری کے ذریعے آئین و قانون میں ترمیم کرنے کا پتا کھیلا ہے اگر کامیاب ہو گئے تو موجودہ سپریم کورٹ کے ججز کو کاؤنٹر کر لیا جائے گا اور اگر ناکام ہو گئے تو کھسیانی بلی بن کر کہہ دیں گے یہ تو حکومتی اور ن لیگ پارٹی پالیسی نہیں تھی اسی لیے پرائیویٹ بل کی صورت میں آیا اور ہم نے ملک کے وسیع تر مفاد میں انتشار سے بچنے کی پالیسی اپنائی ہےمیرا ذاتی تجزیہ ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور انکے ہمراہی دیگر 7 ججز نے جس تحمل بردباری اور اعصاب پہ قابو رکھ کر 47 دن گزار دئیے ہیں اور کوئی ری ایکشن یا اوور ری ایکشن نہیں دیا ہے اس نے ہی سٹیبلشمنٹ م، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور حکومت کے لیے شدید ذہنی دباؤ ڈالا ہے اسی ذہنی دباؤ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے عمران خان کے زیر التواء 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ریمارکس دلوا دئیے اور پھر ان ریمارکس پہ علیمہ خان کی متفرق درخواست بھی لینے سے روک دی۔بہرحال طے ہے کہ اس عمل سے حکومت کامیاب تو نہیں ہو گی مگر عدلیہ کو منفی پیغام چلا گیا یاد رکھو منصور علی شاہ ایک بہترین معتدل مزاج جج ہیں ممکن ہے آپ جسے لانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ آپکے لیے ایک اور حافظ نہ بن جائے سید اشتیاق مصطفی بخاری ایڈووکیٹ ہائیکورٹ