اماں کس کے گھر جائیں گی؟تینوں بیٹوں اور دونوں بیٹیوں کے چہرے پر ایک ہی سوال تھا۔اور وہ سب کے سب گزشتہ ایک گھنٹے سے ہسپتال کے برآمدے میں ٹہل ٹہل کر اس سوال کا جواب سوچ رہے تھے.میرا خیال ہےاظفر بھائی سب سے بڑے ہیں ۔ان کا فرض ہے کہ اماں کو اپنےگھر لے جائیں صائمہ نے بڑی دیر کے بعد اٹکتے ہوئے کہااظفر نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو مسلسل تسبیح کے دانے رول رہی تھی۔اور اماں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔میں اپنے فرض سے انکار نہیں کرتا لیکن تم سب جانتے ہو حرا ملازمت کرتی ہے اور اماں کیلئے اب فل ٹائم عورت کی ضرورت ہے میرا خیال ہےتم گھر رہتی ہو تم اماں کی دیکھ بھال اچھی طرح کر لو گی۔خرچہ کی فکر نہ کرنا وہ میں دوں گااظفر نے خرچے پر زور دے کر کہا میری تو بڑی خواہش ہے کہ اماں کی خدمت کروں مگر آپ تو جانتے ہیں کہ میرے سسرال والے کس طرح کے ہیںورنہ میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے بھائیوں کو کوئی برا کہے ۔پھر؟ کچھ لمحوں کیلئے پھر سکوت چھاگیا۔میرا خیال ہے ظفر بھائی کے پاس اماں زیادہ آرام سے رہ سکتی ہیں سائرہ نے ہکلاتے ہوئے کہا اوربھائی کی طرف دیکھا۔میرا بھی یہ ہی خیال ہے اظفر نے فوراََ چھوٹی بہن کی تائید کیظفر اور اسکی بیوی نے آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہااصل میں اماں کا کبھی بھی ہمارے گھر دل نہیں لگا وہ تو ہمارے گھر دو دن سے زیادہ رہتی ہی نہیں ۔بیماری میں تو انسان تنہائی سے گھبراتا ہے ۔شاہانہ نے شوہر کے کچھ کہنے سے قبل ہی صفائی پیش کر دیپھر اب کیا ہوگا؟میری تو مجبوری ہے میری آمدنی بھی کم ہے پھر میرے گھر میں تو بالکل جگہ نہیں اظہر نے کہا۔پھراماں کس کے گھر جائیں گی ؟سب مجبور تھے اور سوچوں میں غرق تھے۔آپ سب وارڈ نمبر 2 کی مریضہ کے رشتہ دار ہیں ؟ان سب نے گھبرا کر سر اٹھایاجی جیآپ کو وارڈ میں ڈاکٹر بلا رہے ہیں.خدا خیر کرےوہ سب تیزی سے وارڈ میں داخل ہوئےآئی ایم سوری شی از expiredڈاکٹر نے اظفر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ سب کے چہروں پر ظاہری غم کے ساتھ ہی ایک کمینی سی مسرت کا عکس بھی تھا۔اور یہی سچائی ہے ہمارے معاشرے کی کہ دس بچوں کو پالنے والے تنہا والدین کو دس بچے تنہا نہیں پال سکتے ہیں ۔اور بہت سی مائیں بڑھاپے میں اپنی زندگی کے آخری لمحات سڑکوں پہ روزی کماتے اور بچوں کا پیٹ پالتے ھوے گزار دیتی ھے خدا ھمے اپنے والدین کی خدمت جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین