حکومت نے ایک نیا سرچارج بھی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جسے دس کروڑ روپے تک کی آمدنی والے افراد اور بیس کروڑ سے زائد کمانے والے ٹیکس گزار اداروں پر نافذ کیا جائے گا۔
اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نافذ کیا جائے گا اور مخصوص دورانیے یا تین سال تک نافذ رکھا جائے گا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پاور سیکٹر میں سبسڈیز کی کٹوتی کا اعلان پانچ جون کو وفاقی بجٹ کے موقع پر کیا جائے گا جس سے آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ سے اس معاہدے کی منظوری حاصل کی جاسکے گی جو گزشتہ ماہ کے آخر میں عالمی فنڈ کے مشن کے ساتھ پاکستانی وفد نے کیا تھا جس سے پاکستان کو تیس جون سے قبل 506 ملین ڈالر ملنے میں مدد مل سکے گی۔
وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کو اپنے تحریری وعدے میں کہا تھا ” ہم اپنے بجٹ میں سبسڈیز میں بتدریج کمی لائیں گے تاکہ مظلوم صارفین کا تحفظ کیا جاسکے، مالی سال 2015-16 کے لیے بجلی کی سبسڈیز میں مزید جی ڈی پی کے 0.3 تک کمی لائیں گے اور گردشی قرضوں پر قابو پائیں گے”۔
حکومت نے رواں سال کے بجٹ میں 185 ارب روپے پاور سیکٹر کی سبسڈیز کے لیے مختص کیے تھے جبکہ گزشتہ مالی سال میں اس مد میں تین سو ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے تھے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ درحقیقت رواں برس بجلی کے شعبے میں سبسڈیز کی مد میں قانونی چیلنجز کے باعث 230 ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے ہیں۔
رواں مالی سال کے دوران ڈیڑھ سو ارب روپے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو الگ کرنے، 29 ارب کے الیکٹرک کے لیے، پانچ ارب فاٹا اور ایک ارب روپے بلوچستان کے زرعی ٹیوب ویلز پر خرچ کیے گئے۔
آئی ایم ایف مشن کے ساتھ کیے گئے وعدے کے مطابق پاکستان کو چھ سو ارب روپے سے زائد کے گردشی قرضوں کو تین برسوں کے دوران ختم کرنے کے لیے ایک منصوبے کو تیار کرنا ہے ، جس میں بجلی کے ٹیرف میں ایڈجسمنٹ کے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنا اور پاور کمپنیوں کی نجکاری وغیرہ بھی شامل ہوں گے۔
اس کے نتیجے میں وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گزشتہ ماہ کے آخر میں پاور سیکٹر کی سبسڈیز میں کمی اور ڈھائی سو ارب روپے سے زائد کے مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے لیے پاور سیکٹر کی سالانہ سبسڈی میں 100 سے 125 ارب روپے کی کمی اور بجلی کے چھوٹے صارفین کے لیے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے فوائد کو بلاک کرنے جیسے دو فیصلے کیے۔
Leave a Reply