‘اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے’

‘اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے’
تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ 2013 میں سخت مالیاتی پالیسی (شرح سود میں اضافہ) کی وجہ سے بھی افراط زر میں نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان اور سری لنکا میں بھی کمی واقع ہوئی۔

تاہم اس کے بعد سے مرکزی بینک نے مالیاتی پالیسی کو خاصا نرم رکھا ہے۔ کچھ ہی ماہ قبل مرکزی بینک نے شرح سود کو مسلسل چوتھی مرتبہ کم کرتے ہوئے 42 سال کی کم ترین سطح پر پہنچا دیا۔

نومبر 2014 سے اپریل 2015 تک شرح سود میں 300 بیسز پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ہے۔ جولائی 2014 میں مالی سال کے آغاز پر سالانہ بنیاد پر شرح سود 7.88 فیصد تھا جب کہ اپریل 2015 میں یہ ہندسہ 2.1 فیصد تک پہنچ گیا جوکہ گیارہ سال کی کم ترین سطح ہے۔

یہ معیشت میں بہتری کی، بالخصوص قیمتوں کے اعتبار سے، واضح نشانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اب قیمتوں میں اضافے کی پریشانیوں کے بغیر معاشی سرگرمیاں بڑھانا چاہتی ہے۔

ایک واضح کمی کے باوجود پاکستان کا گزشتہ پانچ سال کے دوران اوسط افراط زر خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے۔
ٹیکس ٹو جی ڈی پی:

نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش اور انڈیا جیسے جنوبی ایشیا کے بڑے ممالک کو بھی ٹیکس ریونیو میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

صحت کے شعبے پر اخراجات:

پاکستان کے معاشی سروے 2015 کے مطابق حکومت نے صحت کے شعبے پر جی ڈی پی پر 0.42 فیصد خرچ کیا۔ اس شعبے میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا ہے مگر جی ڈی پی ٹو ہیلتھ شرح دہائیوں سے 0.5 فیصد سے نیچے ہی رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں صحت کے شعبے میں اخراجات کی شرح کچھ اس طرح سے رہی ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں اخراجات اوسطاً جی ڈی پی کا 3 فیصد رہے ہیں اور تینوں ملکوں میں صحت کے شعبے میں اخراجات کہیں بھی بڑھائے نہیں گئے ہیں۔bepo

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.