حزبِ اختلاف کی نظر میں بجٹ ‘غریب دشمن’ قرار

ایوان بھر میں حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھے سیاستدانوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کا یہ تیسرا بجٹ مسلم لیگ ن کا ایک روایتی مالیاتی بیان تھا، جس میں حکمران جماعت نے غریبوں کی قیمت پر امیروں کے مفادات کا خیال رکھا ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین نے بجٹ دستاویز کو ’’بصریت سے مکمل طور پر عاری‘‘ اور ’’بلندنظری کے بغیر‘‘ قرار دیا۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ وزیرخزانہ صرف اس لیے خوش تھے کہ ان کی حکومت نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، اسی لیے وہ بار بار اس سال کے اعداد و شمار کا پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری سال سے موازنہ کررہے تھے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’حکومت جب تک کالے دھن کی جانچ پڑتال نہیں کرتی اور لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لاتی، ملکی معیشت حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کرسکتی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی پوری قیادت اسٹیٹس کو کا حصہ اور مجموعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت ہمیشہ بنیادی اقدامات کی مخالفت کرے گی،

ان کی نظر میں آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں سخت اصلاحات کرتے ہوئے اس کو ایک خودمختار ادارہ بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’’پی ٹی آئی نے اپنے شیڈو بجٹ میں ٹیکس اصلاحات کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے، جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے۔‘‘

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے بھی جمعہ کو اپنے ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ ’’وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے یہ واضح نہیں کیا کہ جی ڈی پی میں ٹیکس کا تناسب جو گزشتہ سال 10.2 فیصد تھا، 2014ء میں گر کر 7.5 فیصد رہ گیااور افراطِ زر میں کمی پٹرول کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے آئی تھی۔‘‘

ڈاکٹر عارف علوی نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا بھی مطالبہ کیا۔

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے اختتام کے بعد قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بجٹ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات کے تحت تیار کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’یہ بجٹ یا تو ٹیکس کے بارے میں بات کرتا ہے، یا پھر دولت مند طبقے کے مفادات کے بارے میں۔ اس میں غریبوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے عبدالرشید گوڈیل نے کہا ’’جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، اس بجٹ میں صحت اور تعلیم کو ترجیح نہیں دی گئی ہے اور صرف دولت مندوں کو ٹیکس میں ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔‘‘

عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ بجٹ کو صرف میکرو سطح کے اشاروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس میں اس بارے میں بھی معلومات ہونی چاہیے کہ کیا اقتصادی فوائد نچلی سطح تک منتقل ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر قومی فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ضلعی سطح پر فنڈز کی منتقلی کے لیے صوبائی سطح پر ایوارڈ کمیشن تشکیل دیے جائیں گے، لیکن موجودہ حکومت نے اس بجٹ میں اس چیز کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے۔

شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیرِ خزانہ نے ایوان میں اپنی ناکامی کو خود تسلیم کیا ہے کہ حکومت برآمدات کی طرز کے بہت سے محاذوں پر اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 7.5 فیصد اضافے کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے یہ اضافہ شرمناک حد تک ناکافی ہے۔bu

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.