چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ سرچارج کو بلوچستان اور سندھ ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ۔ دونوں ہائیکورٹس نے سرچارج کیخلاف درخواستیں مسترد کر دیں ، چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ عدالتی فیصلوں میں نیپرا کا کردار زیر بحث نہیں رہا ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیلم جہلم سرچارج بجلی بلوں میں کب شامل کیا گیا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیٹ، ایکوولینٹ اور نیلم جہلم سرچارجز وصول کئے جا رہے ہیں ۔ سرچارجز نیپرا نے عائد نہیں کئے ، غازی بروتھا ڈیم منصوبے کے باعث 2008 ء میں نیلم جہلم سرچارج لگا ۔ نجی کمپنی کے وکیل خواجہ فاروق نے کہا کہ نیلم جہلم کے نام پر سرچارج کی مد میں صارفین سے پیسہ لیا جاتا رہا ۔ دو ہزار آٹھ سے سرچارجز وصول کئے جا رہے ہیں ۔ نوٹیفکیشن 2014 ء میں آیا، سرچارجز کے حوالے سے پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ حالانکہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر ٹیکس وصول نہیں کیا جا سکتا ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرچارج کی وصولی نیپرا کے قوانین کے مطابق ہے۔ اضافی سرچارج وصولی سے قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی ۔ سپریم کورٹ نے درخواست باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے کیس کی مزید کارروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ – 

Leave a Reply