سمندری طوفان کا نام اشوبھا کیوں ہے؟

سمندری طوفان کا نام اشوبھا کیوں ہے؟

کراچی: دنیا بھر میں سمندری طوفانوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، جیسے کہ آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندری طوفان “ اشوبھا “ کا شور برپا ہے، سمندری طوفان کراچی سے 550 کلومیٹر دور ہے۔

گزشتہ سال سمندری طوفان ‘نیلوفر’ کا نام پاکستان نے تجویز کیا تھا اور اب کی بار سمندری طوفان ‘اشوبھا’ کا نام سری لنکا نے تجویز کیا ہے۔

سمندری طوفانوں کے یہ عجیب اور منفرد نام رکھنے کی روایت کافی عرصہ سے چلی آرہی ہے، طوفانوں کو نام دینے کا واحد مقصد ہی یہ ہے کہ اُس خطے کے لوگ اسے آسانی سے شناخت اور یاد رکھ سکیں اور طوفان کے حوالے سے دی جانے والی خبروں سے باآسانی آگاہ ہو سکیں۔

پہلے پہل ماہرینِ موسمیات طوفانوں کو اپنی مرضی سے نام دیا کرتے تھے، یا پھر طوفان کا نام اس جگہ کی مناسبت سے رکھ دیا جاتا تھا، جہاں اُس کے باعث سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہو، مثلاً گیلوسٹن میں آنے والے طوفان کو ‘گیلوسٹن طوفان 1900‘ کا نام دیا گیا۔

جس کے بعد موسمیات کے ماہرین نے یہ فیصلہ کیا کہ ان طوفانوں کے نام حروفِ تہجی کے اعتبار سے رکھے جانے چاہئیں۔

کسی بھی طوفان کا نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم سارک کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے ، 2004ء میں آٹھویں ممالک نے اس نکتے پر اتفاق کر لیا کہ سبھی رکن ملک آٹھ آٹھ نام فراہم کریں گے۔ جب وہ استعمال ہوجائیں، تو پھر نئے نام تخلیق ہوں گے۔ چناں چہ تب سے آٹھوں ملکوں کے دیئے گئے نام باری باری سمندری طوفانوں کو دیئے جارہے ہیں۔

پاکستان نے خطّے میں واقع عالمی موسمیاتی ادارے کے دفتر کو یہ آٹھ نام فراہم کیے تھے: فانونس، نرگس، لالہ، نیلم، نیلوفر، وردا، تتلی اور بلبل۔

بھارتیوں نے یہ نام دیئے: اگنی، آکاش، بجلی، جال، لہر، میگھ، ساگر اور وایو۔ ان ناموں سے عیاں ہے کہ موسمیات داں ایسے نام منتخب کرتے ہیں جو باآسانی بولے اور سمجھے جاسکیں۔

مشہور سمندری طوفانوں میں اب تک کیٹرینا ، سونامی ،ہد ہد، باربرا، نیلوفر ، فلورنس، ہیزل، ڈولی شامل ہیں اور اب اشوبھا نامی طوفان دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہا ہے۔

اس خطے میں پاکستان کے علاوہ، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، تھائی لینڈ، میانمار اور عمان شامل ہیں، جو باری باری بحیرہ عرب میں آنے والے طوفانوں کے نام تجویز کرتے ہیں۔

cxa

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.