انہوں نے کہا کہ پچھلے 28 برسوں سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایم کیو ایم کے کنٹرول میں ہے، لیکن وہ پانی کی فراہمی میں بہتری کے لیے کوئی ایک منصوبہ شروع کرنے میں ناکام رہی ہے۔
نجمی عالم نے کہا کہ پانی کے پریشان کن بحران کے پس پردہ بہت سی وجوہات تھیں، ان میں سے اہم وجوہات غیراعلانیہ ہیں، جبکہ گھارو، دھابیجی اور پپری پمپنگ اسٹیشن پر کے-الیکٹرک کی جانب سے طویل لودشیڈنگ بھی ایک اہم وجہ تھی۔
پیپلزپارٹی کے میڈیا سیل پر نجمی عالم نے اپنے ساتھیوں سردار خان، عابد ستّی، وقار مہدی اور دیگر کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے بارشوں کی کمی اور پانی کی فراہمی کے کسی منصوبے کا شروع نہ کیا جانا بھی اس بحران کا سبب تھا۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ایم کیو ایم اس بحران کے پسِ پردہ اصل وجوہات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس معاملے پر سیاست کررہی تھی، جس نے حقیقی معنوں میں یہ بحران پیدا کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے کے-2 منصوبہ 1988ء میں شروع کیا تھا، کے-3 منصوبہ 2002ء مین شروع کیا گیا تھا اور یہ 2006ء میں مکمل ہوا، اور محض ایک دن پہلے وزیراعلیٰ سندھ نے 26.7 ارب روپے کے کے-4 منصوبے کا افتتاح کیا ہے، جس سے پانی کے بحران پر قابو پانے میں بہت مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے پچھلے 28 برسوں کے دوران اگر پانی کی فراہمی کا کوئی منصوبہ شروع کیا تھا، تو اسے کراچی کے شہریوں کے سامنے واضح کرنا چاہیے۔
پی پی پی کراچی کے صدر نے کہا کہ پچھلے 28 برسوں سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے معاملات ایم کیو ایم کے ہاتھ میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے پانی کے لائنیں دوبارہ بچھانے اور واٹرپمپس کی مرمت کے لیے اربوں روپے مالیت کے معاہدے اپنے من پسند لوگوں کو دیے، لیکن یہ معاہدے صرف کاغذات کی حد تک محدود رہے اور زمینی سطح پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق میئر سید مصطفٰی کمال طویل عرصے تک واٹر یوٹیلیٹی کے چیئرمین رہے، لیکن کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے انہوں نے کچھ نہیں کیا، جبکہ ایم کیو ایم کے اراکین صوبائی اسمبلی واٹر بورڈ کے وائس چیئرمین کے عہدوں پر فائز رہے۔
نجمی عالم نے کہا کہ مصطفٰی کمال نے 2002ء سے 2008ء کے دوران 30 ارب روپے مالیت کے کنٹریکٹ منظور کیے، یہ منصوبے بھی کہیں دکھائی نہیں دیے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے پانی سے محروم علاقوں میں پانی کے ہائیڈرنٹس کے قیام کو فروغ دیا، جس کی پیپلزپارٹی نے حمایت نہیں کی تھی۔
نجمی عالم نے کے ای ایس سی کی نجکاری میں ایم کیو ایم کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس وضاحت کا مطالبہ کیا کہ متحدہ نے اب تک لوڈشیڈنگ پر کے-الیکٹرک کے خلاف کوئی ایک مؤثر احتجاج کیوں نہیں کیا۔
Leave a Reply