کراچی : ڈی جی رینجرز کے کراچی میں جبراََ وصولی کے انکشافات نے تہلکہ مچادیا، سیاسی قیادت نے انکشافات پر حکومت کے سامنے سوال کھڑے کردیئے ہیں۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، شہرِ قائد میں چند برسوں میں غیرقانونی آمدنی لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں روپے تک جا پہنچی اور اسکا ذمہ دار کون ہیں ؟ جرائم پیشہ افراد یا سیاستدان یا پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں جبکہ کالے دھندے کی کمائی میں سفید کالر والے بھی حصے دار ہیں۔
ڈی جی رینجرزکے انکشافات پر نیا پنڈورا بوکس کھل گیا۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزازاحسن نے کہا کرپشن کا دفاع نہیں کریں گے، رینجرز کو کیسے معلوم ہوا کہ غیرقانونی طور پر وصول کی جانے والی رقم کی مالیت دوسوتیس ارب روپے ہیں، ڈی جی رینجرز کی رپورٹ فضا خراب کررہی ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ رینجرز کو دو سو تیس ارب کا پتہ ہے تو ہر اطلاع رینجرز کے پاس ہونی چاہیئے ان کا کہنا تھا کہ اپیکس کمیٹی میں انکشافات کرنے کا کیا مقصد تھا۔
پی پی رہنماء اعتزاز احسن نے سوال کیا کہ 230ارب کی کرپشن سندھ میں ہوئی ، یہ ہندسہ کہاں سے آیا، یہ ہندسہ دینے کا کیا کوئی خاص مقصد ہے؟ ایرانی پٹرول کہاں سے اسمگل ہوتا ہے؟
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ڈی جی رینجرز نے ان حقائق پر تحقیق کی جن سے کراچی کا بچہ بچہ واقف ہے، ڈی جی رینجرز نے تحقیق کرکے کراچی کی حقیقت سے آگاہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ ڈی جی رینجرز نے جن چوبیس ناموں کی فہرست وزیرِاعلی کو پیش کی قوم کے سامنے لائی جائے اب دیکھنا ہے کہ وفاقی حکومت ڈی جی رینجرز کے انکشافات پر کیا ایکشن لے گی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈدے رکھا ہے، اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کریں۔
Leave a Reply