ماما قدیر کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم

خیال رہے کہ بلوچوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہنما ماما قدیر رواں برس 4 مارچ کو ورلڈ سندھی کانگریس میں شرکت کے لیے نیویارک جا رہے تھے کہ ان کو جہاز سے اتار دیا گیا تھا.

فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر شاہد حیات نے تصدیق کی تھی کہ چونکہ ماما قدیر کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا اس لیے ان کو آف لوڈ کیا گیا.

جبکہ وفاقی وزارت داخلہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی کا موقف تھا کہ ماما قدیر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں اس لیے انھیں بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

بعد ازاں ماما قدیر نے اپنا نام ای سی ایل میں شامل کیے جانے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا،جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ماما قدیر اور فرزانہ مجید لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ریاست کے خلاف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ماما قدیر کو امریکا جانے سے روک دیا گیا

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس احمد علی شیخ اور جسٹس فاروق علی شاہ پر مشتمل بینچ نے درخواست پر فیصلہ سنایا۔

ماما قدیر کے وکیل وزیر کھوسو نے سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران موقف اختیار کیا کہ ماما قدیر ایک پر امن شہری ہیں، وہ پاکستان کی حدود کا احترام کرتے رہے ہیں، انھیں رواں سال 4 مارچ کو جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر آف لوڈ کیا گیا لیکن وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔

جبکہ حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ ماما قدیر نوجوانوں کو فوج اور وفاق کے خلاف بھڑکاتے رہے ہیں۔

ماما قدیر کے وکیل وزیر کھوسو کا کہنا تھا کہ اگر وہ حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فوج کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔

سماعت کے دوران عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے ماما قدیر کے خلاف کسی مقدمہ کی موجودگی کے حوالے سے سوال کیا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کی خاموشی پر عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔

عدالتی حکم کے مطابق کہ ماما قدیر پرامن اور آزاد شہری ہیں، ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔

مزید پڑھیں : لاپتہ بلوچ افراد: کوئٹہ لانگ مارچ کا آغاز

خیال رہے کہ ماما قدیر بلوچ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم کے سربراہ ہیں، انھوں نے اپنی تنظیم کے زیر اہتمام کوئٹہ سے اسلام آباد تک براستہ کراچی لانگ مارچ بھی کیا تھا، جس میں 5 مرد، 9 خواتین اور 3 بچے شامل تھے، جبکہ انہوں نے 27 اکتوبر 2013 سے 28 فروری 2014 تک 2500 کلو میٹر طویل مارچ میں بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا تھا.

یاد رہے کہ ہیرالڈ کی سال 2014 کی بہترین شخصیات کی نامزدگیوں میں ماما قدیر بلوچ بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں : 2014 کیلئے ہیرالڈ کی بہترین شخصیات

واضح رہے کہ رواں برس 24 اپریل کو کراچی میں سبین محمود نامی سماجی خاتون رہنما کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا، جب وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں سیمینار کی میزبانی کرنے کے بعد گھر واپس جارہی تھیں۔

اس سیمینار کا عنوان ’بلوچستان پر اقوامِ متحدہ کی خاموشی‘ تھا ، جبکہ ماما قدیر بلوچ اور فرزانہ بلوچ نے دیگر مقررین کے ساتھ اس سیمینار سے خطاب کیا تھا۔

بعد ازاں سانحہ صفورہ کے ملزمان نے گرفتاری کے بعد بتایا کہ انہوں نے سبین محمود کو قتل کیا ہے جبکہ ابتدائی تحقیقات میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان کے قتل کی وجہ ماما قدیر بلوچ کو سیمینار میں مدعو کرنا ہو سکتا ہے۔

ٹی وی اینکر حامد میر کا کہنا تھا کہ ان پر اور سبین محمود پر حملے میں انہوں نے کئی مماثلتیں دیکھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ’سبین مولاناعزیزکے خلاف مہم پر نشانہ بنی‘

حامد میر کے زخمی ہونے پر ان کے بھائی عامر میر نے فوری طور پر اپنے بھائی (حامد) کو ہلاک کرنے کی کوشش کا الزام ملک کی انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) پر عائد کیا تھا۔

سبین کے قتل کے بعد حامد میر نے کہا تھا کہ ’’سب سے زیادہ مشترکہ عنصر تو ماما قدیر بلوچ تھے، اس لیے کہ مجھے بھی یہی دھمکیاں ملی تھیں، جب میں نے انہیں اپنے شو میں مدعو کیا تھا‘‘۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.