چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایم کیو ایم کے استعفوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے استعفوں سے متعلق کیسز کو یکجا کرکے سنا جائے گا۔
عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں سے متعلق درخواستیں یکجا کرنے کا حکم دیتے ہوئے وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر، وزیر اعلی سندھ، اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور الیکشن کمیشن سمیت 97 فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔
نوٹس جاری کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں : پی ٹی آئی استعفے:وزیراعظم سمیت دیگرکو نوٹس
یاد رہے کہ تحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی کو مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے چیلنج کیا تھا۔
حکومتی سینیٹر ظفر علی شاہ نے ہی 12 اگست کو سپریم کورٹ میں ایم کیو ایم کو ایوان میں واپس لائے جانے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جس دن ارکان پارلیمان نے استعفے دیئے تھے اسی دن سے موثر ہو گئے تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس 22 اگست کو تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران مستعفی ہو گئے تھے.
تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف اسلام آباد میں 126 روز کا دھرنا بھی دیا، تاہم پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا.
مزید پڑھیں : جوڈیشل کمیشن رپورٹ : پی ٹی آئی کے دھاندلی الزامات مسترد
حکومت اور تحریک انصاف میں رواں برس 2 اپریل کو ایک معاہدے کے تحت جوڈیشل کمیشن بنایا گیاجس نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کرکے رپورٹ جاری کی، تاہم رپوٹ میں دھاندلی کے بجائے بد نظمی کی نشاندہی کی گئی تھی.
5 اپریل کو تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس آنے کا اعلان کیا جبکہ 6 اپریل کو پی ٹی آئی کے اراکین عمران خان کی قیادت میں اجلاس میں شریک ہوئے، تاہم متحدہ قومی موومنٹ نے پی ٹی آئی اراکین کی شرکت کو آئین کے آرٹیکل 64 کی شق 8 کے تحت غیر قانونی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں : ‘پی ٹی آئی کی واپسی غیر آئینی’، متحدہ کا موقف
بعد ازاں 22 اپریل کو متحدہ قومی موومنٹ اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے تحریک انصاف کی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے خلاف تحاریک جمع کروائی گئیں۔
دونوں جماعتوں کا مؤقف تھا کہ آئین کے تحت 40 روز تک اسمبلی سے غیر حاضر رہنے والا رکن ڈی سیٹ ہوجاتا ہے، جبکہ تحریک انصاف کے اراکین 7 ماہ (210 روز) سے زائد اسمبلی سے غیر حاضر رہے۔
یہ بھی پڑھیں : تحریک انصاف کو ڈی-سیٹ کرنے کی تحاریک واپس
تاہم 6 اگست کو وزیر اعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کی کوششوں سے ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) نے اپنی تحاریک واپس لے لیں۔
ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے قرار داد واپس لیے جانے کے بعد بھی کہنا تھا کہ اگرچہ انھوں نے پی ٹی آئی ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی تحاریک واپس لے لی ہے لیکن ان کا مؤقف برقرار ہے۔
یہ بھی پڑھیں : متحدہ قومی موومنٹ اسمبلیوں سے مستعفی
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے قومی اسمبلی کے 24 ، سینیٹ کے 8 اور سندھ اسمبلی کے 51 ارکان نے 12 اگست کو استعفے دیئے تھے.
ایم کیو ایم کراچی آپریشن میں مبینہ طور پر متحدہ کو نشانہ بنائے جانے پر بطور احتجاج مستعفی ہوئی تھی۔
مزید پڑھیں : ایم کیو ایم کیوں مستعفی ہوئی!
بعد ازاں حکومت نے جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کو ٹاسک دیا کہ وہ ایم کیو ایم کو اسمبلی میں واپس لانے پر آمادہ کریں لیکن انھیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور ایم کیو ایم نے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا.
Leave a Reply