اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشری بی بی اور نجم الثاقب کی آڈیو لیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل منظور اقبال دوگل کو مخاطب کر کے کہا آپ کے مطابق کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشری بی بی اور نجم الثاقب کی آڈیو لیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل منظور اقبال دوگل کو مخاطب کر کے کہا آپ کے مطابق کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی، اگر آپ اب اس موقف سے پیچھے ہٹیں گے تو اس کے نتائج ہوں گے۔ قانون کہتا ہےکہ وفاقی حکومت اجازت دے سکتی ہے مگر آپکے مطابق اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وقت طلب کیا تو جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’آپ کو نہیں پتہ تھا کہ آج کیس لگا ہوا ہے؟ ایک سال سے یہ پٹیشنز زیر سماعت ہیں، اگر وفاقی حکومت عدالت میں جھوٹ بولے گی تو بات کیسے آگے بڑھے گی؟ وزیراعظم آفس سمیت دیگر اداروں کی جانب سے رپورٹس جمع کرائی جا چکی ہیں، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو لیگل انٹرسیپشن کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ ’وہ جواب پٹیشنر کی آڈیو لیکس کی حد تک تھا۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جو بھی ہے آپ بتائیں شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت آپ ریکارڈ کر رہے ہیں؟ زبانی کلامی نہ بتائیں باضابطہ طور پر بتائیں،آپ بتائیں آپ نےکس کو اجازت دے رکھی ہے؟ کس نے اتھارٹی دی ہوئی ہے کہ شہریوں کی کالز ریکارڈ کی جائیں؟ جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ قانون کہتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور دیگر گریڈ بیس کے افسر کو نوٹیفائی کریں گے جو سرویلینس کی اجازت کے لیے درخواست دیں گے۔ اگلا مرحلہ حکومتی وزیر کی جانب سے سپورٹنگ مٹیریل دیکھ کر سرویلنس کی اجازت دینا ہے جس کی حتمی منظوری عدالت دیتی ہے۔ اس قانون میں بھی پرائیویسی کو مدنظر رکھا گیا ہے، یہ بتائیں کہ اگر سرویلنس کی اجازت دی گئی تو وہ اجازت کہاں ہے؟ دوران سماعت عدالت نے سوالات اٹھائے کہ کیا کبھی کسی خفیہ ریکارڈنگ کے لیے اِس قانون کےتحت آج تک عدالت سے اجازت مانگی گئی؟ قانون کےتحت ہر چھ ماہ بعد کسی کی ایسی خفیہ ریکارڈنگ کےاجازت نامے پر نظر ثانی کی جائے گی، کیا کوئی ایسی نظر ثانی کمیٹی آج تک بنی؟ عدالتی اجازت کے بغیر فون ریکارڈنگ اور فون ریکارڈنگ کی فراہمی بھی قابلِ سزا ہے۔ کیا پی ٹی اے کے لائسنس کی شرائط میں یہ چیزیں شامل ہیں یاپی ٹی اے نے اس حوالے سےکوئی پالیسی دی ہے؟ اس قانون کو پچھلے ایک سال میں فالو کیا گیا ہے یا نہیں؟ بتائیں کہ غیر قانونی ٹیلی فون ریکارڈنگ پر کیا ایکشن لیا گیا؟ آپ نے کیا تحقیقات کیں کہ سوشل میڈیا پر آڈیو لیکس کیسے وائرل ہوئیں؟ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا پر کوئی چیز اپلوڈ ہو تو آئی پی ایڈریس سے ٹریک ہو سکتی ہے، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کو کہا کہ ٹریک کر کے بتائیں تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس یہ صلاحیت نہیں، پھر تو یہ اداروں کی ناکامی ہوئی۔ ایف آئی اور اور پولیس کا کیا کام ہے؟ اس معاملے میں ابھی تک ایف آئی آرز درج کیوں نہیں کی گئیں؟ ایک ملک میں اگر کرائم ہوا ہے تو آپ انتظار کریں گے کہ کوئی آ کر شکائت کرے تو تحقیقات کریں؟ ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو خط لکھا ہے اور جواب کا انتظار ہے۔ اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اگر جواب مزید دس سال نہیں آئے گا تو آپ کیا کریں گے؟ ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے جواب دیا کہ ’اس معاملے کی انکوائری چل رہی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی حکومت سے ہدایات لینے اور عدالتی سوالوں کے جواب جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نےوفاق سے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی گفتگو کے اعدادوشمار کا ریکارڈر بھی طلب کر لیے اورکہا کہ آپ اس متعلق بھی جواب دیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کس قانون کے تحت کیں؟

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

سائنس اور ٹیکنالوجی

ڈیفنس

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Baadban Tv. All Rights Reserved