تازہ تر ین

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد کی روشنی میں پنجاب اور پختونخوا اسمبلی کے مزید 93 اراکین کو تحریک انصاف کا تسلیم کرلیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد کی روشنی میں پنجاب اور پختونخوا اسمبلی کے مزید 93 اراکین کو تحریک انصاف کا تسلیم کرلیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب سے سنی اتحاد کونسل کے 29 اور پختونخوا اسمبلی کے 58 اور سندھ اسمبلی کے 6 ارکان کو تحریک انصاف کا قرار دے دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے 93 ارکان کو تحریک انصاف کا تسلیم کرنے کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا۔قبل ازیں، الیکشن کمیشن نے 39 ارکان کو تحریک انصاف کے ارکان ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جنہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نوٹیفائی کیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کا 8 واں اجلاس کل منعقد ہوگا، اجلاس شام 5 بجے ہوگا۔اسلام آباد، 29 جولائی: بھارت میں عام انتخابات کے بعد طاقت کی حرکیات قدرے تبدیل ہونے کے باوجود تحریکِ آزادیِ کشمیر کا تسلسل جاری رہنے کے امکانات ہیں۔ اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں حکومت کررہی ہے، لیکن بی جے پی اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں ہی کشمیر سمیت تمام خارجی اور داخلی امور میں یکساں پالیسیوں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں ۔ اگرچہ ہندوستانی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، لیکن مختلف اندرونی عوامل اور بیرونی ماحول میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ لامحالہ صورتحال پر اثر انداز ہوں گی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے محرک کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ دریں اثنا، ہندوستانی پالیسیوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا، طویل مدتی عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور ایک مضبوط حکمت عملی پر مبنی، کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد کے زیرِ اہتمام 23ویں آئی پی ایس ورکنگ گروپ آن کشمیر کی میٹنگ کے دوران کیا گیا جس کا عنوان ’’تیسری بی جے پی حکومت: انڈیا کی کشمیر پالیسی اور اس کا مستقبل کا آؤٹ لک‘‘ تھا۔ اس سیشن کی نظامت سابق سفیر اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سید ابرار حسین نے کی، جبکہ اس سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سیکیورٹی تجزیہ کار ڈاکٹر سید محمد علی ، ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ملٹی ٹریک ڈائیلاگ ڈویلپمنٹ اور ڈپلومیٹک اسٹڈیز ڈاکٹر ولید رسول ، ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر راجہ سجاد محمد خان ، انقرہ میں مقیم کشمیری صحافی افتخار گیلانی ، اور سابق وزیر آزاد جموں و کشمیر اور آئی پی ایس ریسرچ ایسوسی ایٹ فرزانہ یعقوب نے خطاب کیا۔ گفتگومیں انتخابات کے بعد بی جے پی کی واضح طور پر کمزور پوزیشن کے باوجود مقبوضہ کشمیر پر تسلط قائم کرنے کی بھارت کی مستقل پالیسی کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے قانون سازی میں تبدیلیوں کی سہولت کے لیے انتظامی اختیارات وزیر اعلیٰ سے لیفٹیننٹ گورنر کو منتقل کر دیے ہیں۔ یہ اقدام، جوستمبر 2024 میں متوقع قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے پیش نظر کیا گیا، کشمیر پر غیر قانونی اختیار حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کے لیے اپنے مقصد پر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ کشمیر میں ووٹر ٹرن آؤٹ میں نمایاں اضافہ –جو کہ 2019 ءمیں 19.6% سے بڑھ کر 2024 ءمیں 50.86% تک پہنچ گیا – ووٹنگ کے استعمال کو بقا اور مزاحمت کے ایک ذریعہ کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں، بھارت میں مسلمانوں کی موجودہ حالت زار کشمیریوں کے لیے ایک انتباہی مثال کے طور پر کام کرتی ہے کہ وہ اپنا مستقبل بھارت کے ساتھ نہ دیکھیں۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بی جے پی کی مقبوضہ کشمیر پر تسلط جمانے کی پالیسی کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارتی پالیسیاں کشمیریوں کے حق ِخودارادیت کے مقصد کو نا قابلِ حصول بنا کر، انہیں بین الاقوامی سطح پر نظر انداز ہونے کا احساس دلانے اور بھارتی تسلط کو قبول کرنے کی طرف ان کی ذہنیت کو بگاڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دہلی کشمیریوں کو یہ یقین دلا کر گمراہ کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے کہ ان کا مستقبل بھارت کے ساتھ ہے اور بھارت نواز کشمیری جماعتوں پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ بھارتی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوں۔ مزید برآں، بھارت پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت کرنے سے قاصر ظاہر کرتا ہے اور ان کی جدوجہد کے جواز کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا کے ذریعے بیانیے گھڑتا ہے۔ اس کی حکمت عملی میں مزاحمت کو سزا دینا اور اپنے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے میڈیا کا استعمال شامل ہے۔ پاکستان کو قانونی، سماجی، سیاسی، اقتصادی، سلامتی، سفارتی، تارکین وطن، نظریاتی، فکری اور تاریخی سمیت تمام محاذوں پر بھارتی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی نقطہ نظر اپنانا ہو گا۔ اس میں بین الاقوامی فورمز میں آزاد جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کا فائدہ اٹھانا، کشمیری نوجوانوں کو ایک معاون بیانیہ بنانے کے لیے متحرک کرنا، اور امید اور اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے نوجوان سیاسی کارکنوں کو مصروفِ عمل کرنا شامل ہے۔ بھارتی مظالم کو اجاگر کرنا، کثیرالجہتی فورمز کا استعمال اور تارکین وطن کو متحرک کرنا بھی ضروری ہے۔ مزید برآں، ادب اور فلم کے ذریعے کشمیر کی نرم طاقت کو بروئے کار لایا جانا چاہیے، اور بھارتی مظالم سے متعلق تاریخی اعداد و شمار کو احتیاط سے مرتب کیا جانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کی حکمت عملی کو عالمی، علاقائی، مقامی اور مزاحمتی جہتوں پر توجہ دینا چاہیے۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں موثر پالیسی سازی اور پاکستان کے لیے ایک مضبوط بین الاقوامی کردار ادا کرنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر بہت ضروری ہے۔ انہوں نے قومی کشمیری جذبات کو دوبارہ زندہ کرنے اور امید کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے کمزوریوں کی بجائے طاقتوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں ایک فعال موقف برقرار رکھنا ہو گا۔ صدر استحکام پاکستان پارٹی اور وفاقی وزیر برائے نجکاری، سرمایہ کاری بورڈ اور مواصلات عبدالعلیم خان نے سعودی شہزادہ اور یونائٹڈ نیشن میں نمائندے عبداللہ بن خالد کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اسے امت مسلمہ کے لئے بڑا سانحہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے شہزادہ عبداللہ بن خالد کے انتقال پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سر زمین حجاز سے شاہی خاندان کے فرد کی رحلت کی خبر نے پوری اسلامی برادری کو سوگوار کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر عبدالعلیم خان نے مرحوم شہزادے کے لئے دعائیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ شہزادہ عبداللہ بن خالد کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کا سفر آخرت آسان فرمائے۔ وفاقی وزیر نے شاہی خاندان سے اظہار تعزیت بھی کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ شاہی خاندان کو اس مشکل گھڑی میں ہمت اور حوصلہ عطا کرے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ٹی آئی پر پابندی کے حوالہ سے قرارداد ایوان میں آسکتی ہے۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں کل نجی کاروائی کا دن ہے، پی ٹی آئی کیخلاف قراردارایوان حکومتی اراکین کی طرف سے نجی ایجنڈا کے طورپرپیش کی جائے گی۔ جبکہ اراکین کی طرف سے پیش کردہ نجی قانون سازی، قراردادیں اور تحاریک پیش کی جائیں گی۔اسلامی نظریاتی کونسل کا چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فتوے پر کہنا ہے کہ کسی فرد، گروہ یا جتھے کو نہ شرعاً اور نہ ہی قانوناً اجازت ہے کہ خود عدالت لگاتے ہوئے کسی کے قتل کا فتویٰ اور حکم جاری کرے۔ اشتعال انگیزی، تکفیر کے فتویٰ اور کسی حکومتی، ریاستی یا کسی عام فرد کو قتل کرنے کی دھکمی دینا قرآن و سنت کی واضح تعلیمات سے متصادم ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ الم دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ صحیح اور غلط نظریات کے بارے دینی آگہی مہیا کرے اور مسائل کا درست شرعی حل بتائے، البتہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کرنا کہ آیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے، یہ ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ کفر کے فتوؤں اور واجب القتل قرار دینے کی روش اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں۔

چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ کسی فرد کو واجب القتل قرار دینا غیر شرعی غیر قانونی ہے، اس طرح کے جذباتی اقدامات سے عقیدہ ختم نبوت کے کاز کو نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مملکت خداداد پاکستان آئینی و اسلامی ریاست ہے۔ قانونی نظم میں ہر نوعیت کے جرائم کی مستقل سزائیں موجود ہیں، جو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق بذریعہ عدالت دی جاتی ہیں۔

چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکی پر ٹی ایل پی نائب امیر گرفتار

اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ عدالتی فیصلہ سے اگر کسی کو اختلاف ہے تو اس بارے میں علمی انداز سے گفتگو کی جاسکتی ہے جیسا کہ قبل از میں خود اسلامی نظریاتی کونسل اس حوالہ سے نہایت عالمانہ اور مدلل انداز میں اپنی اختلافی رائے ظاہر کر چکی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے 212 ویں اجلاس منعقدہ 27 نومبر 2018 میں قرار دیا تھا کہ ’کفر کے فتوؤں اور واجب القتل قرار دینے کی روش اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں۔ پاکستان ایسی اسلامی ریاست میں کسی بھی شخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی من مانی تشریحات کے مطابق دوسروں کے عقیدے اور مذہب کا فیصلہ کرے اور اُن کے بارے میں واجب القتل ہونے کا فتویٰ جاری کرے۔ ہمیں اس معاملے میں نہایت دھیان اور احتیاط کے ساتھ کام لینے کی ضرورت ہے۔‘انسانی حقوق یاآزادی رائے کی آڑمیں حد سے تجاوز کی اجازت نہیں دی جائے گی ، چیف جسٹس کیخلاف بیان پر زیرو ٹالرینس پالیسی ہوگی وزیرقانون نے واضح پیغام دیدیا ۔ کہا کہ کسی کو حق نہیں کہ عدالتی فیصلے پر جج کی جان کیخلاف فتوی دے۔

پاکستان باراورایچ ای سی کے درمیان لیگل ایجوکیشن معاہدے کی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فتوی جاری کرنے اورریاست کے اندرریاست بنانے کے رواج کی سب کو مذمت کرنی چاہیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف فتوی ایک جرم ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہرچیزکی کوئی حد ہوتی ہے چیف جسٹس پاکستان کیخلاف بیان پرریاست کی زیرو ٹالرینس پالیسی ہوگی، خلاف ورزی پر ایف آئی آردرج ہوگئی ہے اب گرفتاریاں بھی ہونگی۔

اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ انسانی حقوق یاآزادی رائے کی آڑمیں حد سے تجاوز کی اجازت نہیں دینگے، جہاں قانون کی حد عبورہوگی، ریاست اپنی پوری طاقت کےساتھ ردعمل دے گی۔ کوئی کسی کی جان اور مال کے بارے میں فتوی جاری نہیں کر سکتا۔

وزیرقانون نے کہا کہ تعلیمی نصاب میں بھی ایسا مواد شامل کرنا چاہیے جو عدم برداشت ختم کرے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ایک نیک نام اور اصول پسند شخص ہیں ، کسی کو حق نہیں کہ عدالتی فیصلے پر جج کی جان کیخلاف فتوی دے۔

وزیرقانون کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان جنگ کے بعد دہشتگردی سمیت بہت سے مسائل معاشرے میں آئے ہیں، قانونی تعلیم کے معیارکوبہتر کرنا بہت ضروری ہے ۔

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

سائنس اور ٹیکنالوجی

ڈیفنس

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Baadban Tv. All Rights Reserved