الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اسلام آباد کے تین حلقوں کے کیسز دوسرے ٹریبونل کو منتقل کرنے کی منظوری دے دی۔ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے ن لیگی ارکان قومی اسمبلی کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنادیا، چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 4 رکنی کمیشن نے محفوظ فیصلہ سنایا، جس میں الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں ٹربیونل جج تبدیل کرنے کی ن لیگی اراکین قومی اسمبلی انجم عقیل، طارق فضل چوہدری اور راجہ خرم نواز کی درخواست منظوری کرلی اور تینوں حلقوں کی درخواستیں دوسرے ٹریبونل کو منتقل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں کی کیس دوسرے ٹریبونل کو منتقل نہ کرنے کی استدعا مسترد کردی، اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے سماعت مکمل ہونے کے بعد گزشتہ جمعہ کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جہاں ن لیگ کے طارق فضل چوہدری، راجہ خرم نواز اور انجم عقیل نے کیسز دوسرے ٹریبونل کو منتقل کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔بتایا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں بینچ نے اس معاملے پر سماعت کی جہاں درخواست گزار طارق فضل چوہدری کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کوڈ آف سول پراسیجر کے تحت ٹربیونل الیکشن کمیشن کے اختیارات کے ماتحت ہے جہاں ایک امیدوار نے جیب سے دستاویز نکالی تو اسے ٹربیونل نے مان بھی لیا، ہم پیش نہیں ہوئے تو جرمانے شروع کردیئے، فارم 45 جو پیش کیا گیا اس کو کراس چیک کرنے کے بجائے مان لیا گیا‘۔وکیل نے دلائل میں کہا کہ ’ٹریبونل کی جانب سے کوئی قانونی ضابطہ نہیں اپنایا گیا اور پروسیڈنگ شروع کردی گئیں‘، چیف الیکشن کمشنر نے دریافت کیا کہ ’آپ کہنا چارہے ہیں گواہ پیش کرتے اور اسے کراس چیک کیا جاتا؟ آپ کا ایشو کیا ہے؟ کیا ٹربیونل کا فیصلہ آنے جا رہا ہے؟‘، وکیل نے جواب دیا کہ ’ٹرائل شروع نہیں ہوا اور ججمنٹ دی جانے لگی، فیصلہ تو ایک قسم کا دیا جاچکا ہے، جلدی میں کیس لے کر چلا جارہا ہے، ہماری استدعا ہے ٹربیونل کی کارروائی کو فوری روکا جائے‘۔چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیئے کہ ’کس قانون کے تحت کارروائی روکی جاسکتی ہے؟ آپ نے تبادلے کا تو کہا ہے‘، وکیل نے جواب دیا کہ ’تمام اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس ہیں، الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن جتنے چاہے ٹربیونل قائم کرسکتا ہے، ہائی کورٹ کا رجسٹرار دفتر کیسے ان درخواستوں کو لے سکتا ہے؟ ٹربیونل کی جانب سے کس طرح کارروائی کی گئی ٹربیونل تبدیلی کے لیے یہ ہی کافی ہے‘، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنا دیا گیا۔