سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیر کو مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے ۔70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جس میں پشاور ہائیکورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے ۔فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن میں بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ عدالت نے فیصلے کے اردو ترجمہ کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جو ارکان جس جماعت سے وابستگی کا حلف نامہ دیتے ہیں انہیں اس جماعت کا تصور کیا جائے گا۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ کے پاس آرٹیکل 199 میں وہ اختیار موجود نہیں جو سپریم کورٹ کے پاس مکمل انصاف کرنے کیلئے آرٹیکل 187 میں ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس آرٹیکل 218(3) میں اختیار ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوں۔سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ یہ ایک عام سول کیس نہیں ہے بلکہ اعلیٰ ترین نوعیت کا مقدمہ ہے، جہاں جمہوریت آئین کی ایک اہم خصوصیت اور عوام (ووٹرز) کے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے بنیادی حق کو محفوظ، دفاع کرنا ہے تاکہ ریاست کے قانون ساز اور انتظامی اداروں کے نمائندوں کا انتخاب ہو سکے۔ اکثریتی تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، آئین و قانون کسی شہری کوانتخاب لڑنے سے نہیں روکتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، انتخابی نشان واپس لئے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہوگئے۔سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر کنول شوذب کی درخواست کو غیر ضروری قرار دے دیا۔سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کونسی سیاسی جماعت کو کتنی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں،ان نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد کردہ افراد کا انفرادی حق نہیں ہوتا،الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے۔