انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے 7 ارب ڈالرز قرض کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے علاوہ بین الاقوامی نجی شعبے سے 2 ارب ڈالرز قرض کی یقین دہانیاں حاصل ہوگئیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کے حصول میں مزید کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان ستمبر 2024 میں آئی ایم ایف اجلاس میں اپنا مقدمہ پیش کرے گا، پاکستان کو رواں مالی سال 26.20 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کی منظوری کیلئے پیش رفتمالی سال کی ادائیگیوں میں 16.3 ارب ڈالر رول اوور ہوں گے، مارچ تک 14.1 ارب ڈالر واجب لادا اور 8.3 ارب ڈالر رول اوور ہوں گے۔مارچ تک کے بقایا 5.8 ارب ڈالر ماہانہ 80 کروڑ سے 1 ارب ڈالر ادا کریں گے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق جولائی سے ستمبر تک 4 ارب ڈالر سیٹل کر چکے ہیں، جولائی سے ستمبر تک 1.7 ارب ڈالر ادا کیے ہیں اور 2.3 ارب ڈالر رول اوور کیے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کا کابینہ اجلاس سے خطاب میں کہنا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کیلئے جن دوستوں نے پچھلی بار پاکستان کی مدد کی تھی، اس بار بھی انہوں نے ہمارا پورا ساتھ دیا۔ اسلام آباد 12ستمبر 2024ءامیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ٹیکسز کا لامتناہی سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ جرنیل، جاگیردار، اشرافیہ،وڈیرے 77برسوں سے حکومتیں چلا رہے ہیں، مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا، مسائل کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی سبھی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ ملٹری،سول بیوروکریسی اور انتظامیہ میں بہترین صلاحیت کے لوگ موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ایک مائنڈ سیٹ ہے جو انگریز دے کر گیا ہے اوراس کا شکار بعض ججز بھی ہیں، اس مائنڈ سیٹ نے ملک،عوام اور نظام کو جکڑا ہوا ہے،یہ پورا نیٹ ورک ہے جو کسی کو آگے نہیں بڑھنے دیتا، اب یہ دھندہ بند ہونا چاہیے، مرضی کے جج، بیوروکریٹ لائے جاتے ہیں، سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے گملوں میں بڑھے ہوتے ہیں، کبھی انہیں ایک تو کبھی دوسری پارٹی میں گھسیٹ کر الیکٹیبلز کی سیاست کی جاتی ہے، ان رویوں نے ملک کو کئی سال پیچھے دھکیل کر بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ اس پورے نظام اور سسٹم کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب کو منظم ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جماعت اسلامی نے فرسودہ نظام اور اس کے رکھوالوں سے جان چھڑانے کے لیے پرامن قومی مزاحمتی تحریک شروع کی ہے۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی میاں اسلم، امیر اسلام آباد نصراللہ رندھاوا، صدر تنظیم تاجران پاکستان کاشف چودھری، صدر یونائٹڈ گروپ ظفر بختاوری، امتیاز عباسی، بابر چودھری، سید عمران بخاری بھی موجود تھے۔امیر جماعت نے کہا کہ ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اچھے حالات نہیں آئے اور ہمیشہ معاشی صورتحال بدحال ہی رہی ہے۔ ہم انشااللہ پاکستان کو عظیم اور ترقی یافتہ بنائیں گے۔ پاکستان کے پاس بہترین باصلاحیت لوگ ہیں جو اس ملک کو اوپر اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو جتنی تیزی سے نیچے جا سکتے ہیں اس سے زیادہ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک نظام رکھتی ہے جو ملک کے نوجوانوں، تاجروں، کسانوں، مزدوروں، ڈاکٹروں، وکیلوں سب کو یکجا کر سکتی ہے۔ ملک میں صرف جماعت اسلامی کے پاس لوگوں کی وہ تنظیم ہے جو خدمت، کام، ایجوکیشن، صلاحیت اور صالحیت میں سب سے آگے ہے۔ آپ سب جماعت اسلامی کا حصہ بن سکتے ہیں، آئیے ہمارے ساتھ مل جائیے، اس نظام کو ہم سب نے اکٹھے ہو کر ٹھیک کرنا ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق کئی کروڑ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، ادارے میں 13 سو ارب کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اتنے طویل عرصہ سے یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا ایف بی آر اس قابل ہے کہ ٹھیک طریقے سے ٹیکس کے نظام کو چلا سکے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں پرائیویٹ کمپنیوں کو لا کر ٹیکس سے چھوٹ دی گئی اور کیپسٹی چارجز کا دھندہ شروع ہوا۔ لوکل کمپنیوں سے بہتر معاہدے کیے جائیں تو چائینہ سمیت باہر کی کمپنیاں خود معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے آمادہ ہوں گی۔ چین سے دوستی اپنی جگہ لیکن میرٹ اور ملک کے مفاد میں معاہدے کیے جائیں۔ حکمران طبقے اور باہر بیٹھے سیٹھوں کی کمپنیوں سے معاہدوں پر نظر ثانی نہیں کی جاتی تو ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ اس ملک کی تقدیر بدلنے اور مسائل کو حل کرنے کیلیے سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ کوئی کریڈٹ کے چکر میں نہ پڑے،جماعت اسلامی کریڈٹ نہیں چاہتی۔ سب ایک پیج پر کھڑے ہوں، ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں، آگے بڑھیں، تمام چیمبر آف کامرس، تاجر برادری، انڈسٹریز کو یکجہتی کرتے ہوئے ایک پیج پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جھوٹ بولتے ہیں کہ کمپنیوں کے معاہدات انٹرنیشنل لیول پر ہوئے ہیں وہ انٹرنیشنل کورٹ میں چلے جائیں گے۔ پوچھتا ہوں کہ اگر ریکوڈک کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو آئی پی پیز کا مسئلہ حل کیوں نہیں ہوسکتا، ایران گیس پائپ لائن کو مکمل نہ کرنے پر 18 بلین ڈالر جرمانہ عائد ہوگا، اس منصوبے کو مکمل کیا جائے تاکہ ملک کی معیشت کا پہیہ چلے۔انہوں نے کہا آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے بعد آئی ٹی انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ دنیا آئی ٹی انڈسٹری پر کام کر رہی ہے اور ہم اس کام میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ اس فیلڈ کے لیے ہمارے پاس افراد اور مارکیٹ موجود ہے۔ فری لانسنگ کے لیے پاکستان کے نوجوان کو فنانس گیٹ وے دینے پڑیں گے تاکہ نوجوان آئی ٹی انڈسٹری میں ترقی کریں۔ اب سیاسی اتحادوں کی بجائے ملک کے عوام سے اتحاد ہوگا۔حق کے لیے آئینی، جمہوری و قانونی جدوجہد جاری رکھیں گے اور بالکل پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرنا ہوگا۔ امیر ہو یا غریب سب کو ایک نظام کے تحت تعلیم دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پاور سیکٹر کو کھلی چھوٹ دی، پرائیویٹائز کر کے کمپنیوں کو لوگوں کی کھال اتارنے پر لگا دیا،پاور سیکٹر میں ڈسٹری بیوشن نطام کو بہتر نہیں کیا گیا۔پی آئی اے، سٹیل مل، واپڈا، ریلوے سب تباہ کر دیا، ملک میں بنکوں کا استحصالی نظام مسلط ہے۔ بنک سود پر قرض در قرض دے کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ ہم نے سب سے زیادہ قرضہ پرائیویٹ بنکنگ سیکٹر کو دینا ہے، جو 15 سے 25 فیصد تک سود لے رہے ہیں۔سود کے نظام سے جان چھڑانا ہوگی، قوم، تاجروں، کسانوں، طالب علموں،نوجوانوں سمیت ہر طبقہ فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ ہمارا ساتھ دیں تاکہ اس استحصالی نظام سے نجات ملے اور ملک آگے بڑھے۔