ایک طرف حکومت معیشت کو سہارا دینے کے لیے دوست ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی معاہدے کررہی ہے تو دوسری جانب ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات مسلسل ہورہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی ملک میں پوری طرح امن و امان قائم نہیں ہوا۔ دہشت گردی کے واقعات میں کہیں تو براہِ راست سکیورٹی فورسز اور عوام پر حملے ہورہے ہیں اور کہیں دہشت گردوں کی بنائی گئی بارودی سرنگوں کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس وقت ملک کے دو صوبے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان، بری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اور ان کے مختلف شہروں میں آئے روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور دنیا کو یہ تاثر دینا ہے کہ اس ملک کے ساتھ مل کر تجارت اور کاروبار جیسے معاملات کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں اتوار کو دو ناخوشگوار واقعات پیش آئے جن میں سے پہلے واقعے میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی بارودی سرنگ دھماکے کی زد میں آگئی جس کے نتیجے میں ایک کیپٹن اور چھ جوان شہید ہو گئے۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر دیسی ساختہ بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں شہادتیں ہوئیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ علاقے میں موجود دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے علاقے کی صفائی کی جا رہی ہے اور اس گھناو¿نے فعل کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔لکی مروت ہی میں پیش آنے والے دوسرے واقعے میں گاو¿ں سلطان خیل لکی کے قریب بم دھماکے میں ایک پولیس اہلکار شہید اور 6 نوجوان زخمی ہو گئے۔ دھماکے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر سرچ آپریشن کیا۔ دھماکہ آئی ای ڈی کے ذریعے کیا گیا۔ بتایا جارہا ہے کہ اس بم دھماکے کا ہدف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا قافلہ تھا۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے لکی مروت میں آئی ای ڈی دھماکے کی مذمت کی ہے اور واقعہ کے شہداءکو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ صدر مملکت نے شہداءکے لواحقین سے اظہار تعزیت اور صبر جمیل کی دعا کی اور کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمے کے لیے پوری قوم پرعزم ہے۔ ادھر، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے لکی مروت میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں پاک فوج کے کیپٹن محمد فراز الیاس سمیت 7 اہلکاروں کی شہادت پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان نے لکی مروت میں پاک فوج کی گاڑی پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی۔خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کے مذکورہ نوعیت کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں اور پولیو ٹیموں پر بھی حملے ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی ) خیبر پختونخوا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال انسداد پولیو ٹیموں پر15 حملوں میں 13 پولیس اہلکار شہید ہوئے جبکہ 36 زخمی ہوئے۔ سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق، رواں سال بنوں میں 4، باجوڑ اور ٹانک میں پولیو ٹیموں پر 3، 3 حملے ہوئے جبکہ خیبر، لکی مروت، مردان، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیو ٹیموں پر ایک ایک حملہ رپورٹ ہوا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ باجوڑ میں حملوں سے 9 پولیس اہلکار شہید جبکہ 30 زخمی ہوئے۔ بنوں میں پولیو ڈیوٹی پر تعینات 2 اہلکار شہید جبکہ 3 زخمی ہوئے۔ اسی طرح، جنوبی وزیرستان اور ٹانک میں بھی ایک ایک اہلکار شہید ہوا۔ رپورٹ کے مطابق، بنوں، خیبر اور لکی مروت میں پولیو ٹیموں پر حملے میں ایک ایک اہلکار زخمی ہوا۔ سی ٹی ڈی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ انسداد پولیو ٹیموں پر حملوں میں دو شدت پسند تنظیموں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ان واقعات کو دیکھا جائے تو یہ بات پوری طرح واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ ہمارا دشمن اس لیے بدامنی پیدا کر رہا ہے تاکہ یہاں سرمایہ کاری نہ ہوسکے۔ دہشت گردی کے ذریعے امن و امان خراب کر کے وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ بے شک سکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں مگر دہشت گردوں کی کامیابی سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ سکیورٹی سسٹم میں کہیں نہ کہیں سقم موجود ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ملک میں امن قائم نہیں ہوتا، نہ سرمایہ کاری کی کاوشیں کامیاب ہو سکتی ہیں نہ سی پیک منصوبہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ سکیورٹی اداروں کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں حکومت کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کہاں سکیورٹی اداروں کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں اگر کہیں ترامیم و اضافہ جات کرنے کی ضرورت ہے تو اس پر کام کیا جانا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک اقتصادی استحکام کے لیے ہمارا ساتھ دینے کو تیار ہیں لیکن اس معاملے کو تبھی آگے بڑھایا جاسکتا ہے جب پورے ملک میں امن و امان قائم ہو تاکہ سرمایہ کاری کے لیے یہاں آنے والے افراد خود کو بھی محفوظ سمجھیں اور انھیں یہ بھی یقین ہو کہ ان کا سرمایہ جہاں لگ رہا ہے وہاں سکیورٹی کی صورتحال تسلی بخش ہے۔