بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ مذاکرات آئین کے دائرے میں رہ کر کروں گا۔راولپنڈی اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ سب سے پہلے ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے، اس حکومت سے کیا مذاکرات کروں، 4 حلقے کھلنے سے ختم ہو جائے گی۔صحافی نے سوال کیا کہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے وہ فوج سے مذاکرات نہیں کرسکتے، آپ نے گزشتہ سماعت پر فوج سے مذاکرات کیلئے محمود خان اچکزئی کا نام دیا تھا۔بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ میں نے محمود خان اچکزئی کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا کہا ہے، وہ سیاسی جماعتوں سے ہی بات کریں گے۔صحافی نے سوال کیا کہ آپ یو ٹرن لے رہے ہیں۔اس سوال کا بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ سب سے بڑا یو ٹرن وہ ہے جس نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا اور بوٹ کو عزت دی۔صحافی نے ایک اور سوال کیا کہ شیر افضل مروت کو آپ نے پارٹی سے کیوں نکالا؟تاہم بانی پی ٹی آئی نے شیر افضل مروت سے متعلق کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ بجلی بلوں میں ریلیف کیلئے وزارت خزانہ اور وزارت توانائی نے مختلف تجاویز دے دیں۔ ذرائع کے مطابق کپیسٹی پیمنٹ ادائیگیوں کیلئے 4 ٹریلین روپے تک کی رقم یکمشت ادا کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آئی پی پیز کو رقم یکمشت دے کر بجلی بلوں میں ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تجویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں آئندہ تین سے پانچ برسوں کیلئے اکٹھی کر دی جائیں، اکٹھی رقم فراہم کرنے پر آئی پی پیز کی ادائیگیوں کا بوجھ اور گردشی قرضہ کم ہو گا۔ آئی پی پیز کو ادائیگیاں یکمشت کرنے سے بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ سے زائد کمی ہو گی، وزارت توانائی کی جانب سے ٹوٹل رقم وزارت خزانہ کو اکٹھی دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ تجویز کے مطابق وزارت خزانہ فنانسنگ ارینج کرنے کے بعد رقم وزارت توانائی کو فراہم کرے، وزارت توانائی وزارت خزانہ سے رقم لیکر آئی پی پیز کو یکمشت ادا کرے۔ ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ نے بجلی بلوں میں ریلیف کو آئی ایم ایف سے مشروط کر دیا، وزیراعظم شہبازشریف کو ان تجاویز سے آگاہ کیا گیا ہے لیکن حتمی فیصلہ نہیں ہوا، وزارت خزانہ و وزارت توانائی حکام بجلی بلوں میں ریلیف کیلئے گزشتہ ہفتے سے ملکر کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھاری تنخواہوں، مراعات اور خصوصی پے سکیل پر وزارت اطلاعات و نشریات میں تین افراد کو بھرتی کرنے کی منظوری دی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے وزارت اطلاعات میں سپیشل پے سکیل پر محمد زیبان سید کی ایک سال کے لیے بطور ہیڈ آف مارکیٹنگ تعیناتی کی ہے جبکہ طیب حمید کو ایک سال کے لیے بطور ہیڈ آف ڈیٹا تعینات کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ عبداللہ کھرل کی ایک سال کے لیے بطور ہیڈ آف اسٹریٹیجی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسپیشل پے سکیل کے تحت تعینات ملازم 15 سے 20 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرے گا۔پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے بینچ کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا، دونوں ججز کا اختلافی فیصلہ 29 صفحات پر مشتمل ہے۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔مخصوص نشستوں کا معاملہ: الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا فیصلہدونوں ججز نے اختلافی نوٹ میں اکثریتی فیصلہ تاحال جاری نہ ہونے پر سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا کہ 15 دن کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 51، 63 اور 106 معطل کرنا ہوگا۔اختلافی نوٹ میں مزید لکھا گیا اکثریتی فیصلے میں قانون کی بنیادی دفعات اور آئین کو نظر انداز کیا گیا، پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ عدالت کے سامنے درخواست گزار نہیں تھی، تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے سامنے فریق بننے کی کوشش بھی نہیں کی، تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کی حقدار ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا، سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔اختلافی نوٹ میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے چار خطوط بھی شامل کئے گئے ہیں۔اختلافی نوٹ کے مطابق آزاد امیدواروں کو طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا گیا، 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا، یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کیا۔نوٹ کے مطابق 13 رکنی فل کورٹ کی آٹھ سماعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر صرف ہوا، دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ جس پر کوئی بھی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہ ہوا، سلمان اکرم راجہ نے بھی دلائل میں کہا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے اتفاق نہیں کرتا۔