آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ آئندہ چند روز میں پیش کیا جانے والاہے۔کئی برس سے سخت معاشی مشکلات سے دوچار ہونے اور پون صدی کی ملکی تاریخ میں اب تک مالیاتی نظام میں بنیادی اصلاحات نہ کیے جاسکنے کی وجہ سے نئے مالی سال کے بجٹ کا قوم کے لیے خوشحالی اور ترقی کی بڑی خوش خبریوں پر مشتمل ہونا یقینا ممکن نہیں تاہم منظر عام پر آنے والی بجٹ تجاویز سے واضح ہے کہ حکومت بہتری کے لیے کوشاں ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی رونما ہورہے ہیں۔ قرضوں کے بھاری بوجھ اور ملک کی بیشتر آبادی کے ٹیکس نیٹ سے باہر ہونے کے باعث مالی وسائل اگرچہ بہت محدود ہیں پھر بھی سالانہ پلان رابطہ کمیٹی نے آئندہ مالی سال کے وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے 1221ارب روپے مختص کرنے کی تجویز کی منظوری دی ہے۔ مجموعی قومی پیداوار میں ترقی کی شرح جو 2020ء میں 68 سال بعد منفی رہی تھی اور رواں مالی سال میں 2.4 فی صد تک پہنچی ہے، آئندہ مالی سال کے لیے اس کا تخمینہ 3.6 فی صد لگایا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال کے بیشتر حصے میں مہنگائی کی شرح اگرچہ عالمی بینک کے مطابق 26فی صد تک رہی لیکن حالیہ دنوں میں تمام بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے ہوتی ہوئی نمایاں کمی کی بنا پر سالانہ پلان رابطہ کمیٹی کے اندازے کے مطابق آئندہ مالی سال یہ شرح 12فیصد تک رہے گی جبکہ مجموعی سرمایہ کاری میں اضافے کی شرح 14.2فیصدرکھنے کی تجویز دی گئی۔تاہم بجٹ تجاویز کے ان مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ مالی وسائل کی قلت کے باعث صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کے بجٹ میں بڑی کمی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ زیر نظر رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال سماجی شعبے صحت، تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کیلئے گزشتہ برس کے203ارب روپے کے مقابلے میں صرف83ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں کے منصوبوں کا ترقیاتی بجٹ متاثر ہوا ہے،وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی مد میں صحت کیلئے گزشتہ سال کے مقابلے میں 9 ارب، تعلیم اور اعلی ٰ تعلیم کیلئے 51ارب، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبوں کے بجٹ میں 72ارب روپے کی کمی کر دی گئی ہے۔ترقیاتی کاموں میں ایک بڑی کٹوتی ارکان اسمبلی کو اپنے حلقوں کے لیے کوئی رقم نہ دینے کی تجویز ہے جبکہ پچھلے سال اس مد میں61 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کی خاطر فراہم کی گئی رقم کا درست استعمال ملک بھر میں شہریوں کو روزمرہ زندگی کی متعدد سہولتوں کی فراہمی کا سبب بنتا ہے لیکن رابطہ کمیٹی کی اس تجویز پر عمل کی صورت میں آئندہ مالی سال ایسا نہ ہوسکے گا ۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ کے مجوزہ1221ارب روپے کے بجٹ میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے 877ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں توانائی کے منصوبوں کیلئے 378ارب، ٹرانسپورٹ اور مواصلاحات 173ارب، پانی کے منصوبوں کیلئے 284ارب، فزیکل پلاننگ و ہائوسنگ 42ارب، سماجی شعبے کے منصوبوں کیلئے 83ارب روپے جس میں صحت کے شعبے کیلئے 17ارب روپے، تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کیلئے 32ارب روپے اور دیگر سماجی شعبوں کیلئے 34ارب روپے مختص کیے گے ہیں۔بجٹ تجاویز کے ان مثبت اور منفی پہلوؤں سے واضح ہے کہ موجودہ حکومت ملک کو معاشی بحران سے نجات دلانے کی سنجیدہ کوششیں کررہی ہے اور اس کے امید افزا نتائج سامنے آرہے ہیں لیکن معیشت کی مکمل بحالی اور قرضوں پر انحصار سے نجات پانے میں ابھی بہرحال وقت لگے گا ۔ تمام شعبہ ہائے زندگی کے وابستگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل ہوکر معاشی بحالی کی ان کوششوں میں عملی تعاون کرنا ہوگا جبکہ حکومت کو بھی شفاف نظام کے ذریعے مالی وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنانا اور کرپشن کی ہرقسم کے مکمل خاتمے کا اہتمام کرنا ہوگا۔—- 2———-پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مسلسل تیسری بار ہونے والی کمی ایک خوشی کی بات ہے مگر عام آدمی اس صورت میں زیادہ خوشی محسوس کرتا جب یہ کمی تو قعات کے مطابق اور بین الاقوامی منڈی میں نرخ گھٹنے کے تناسب سے ہوتی۔ یکم جون2024کے پہلے پندرھواڑے کے لئے اعلان کردہ نرخوں سےقبل یکم مئی اور15مئی سے شروع ہونےوالے پندھواڑوں کے لئے پیٹرولیم نرخوں میں کمی کے فیصلے نافذ کئے گئےتھے۔اب وزارت خزانہ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ہفتہ کے روز سے پیٹرول کی قیمت میں4روپے74پیسے فی لیٹر کمی کے بعد نئی قیمت 268روپے 36پیسے فی لیٹر کردی گئی ہے۔ ڈیزل کی قیمت میں3روپے 86پیسے فی لیٹر کمی کے بعد ڈیزل کی نئی قیمت 270روپے 22پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ مٹی کا تیل بھی ایک روپے 87پیسے فی لیٹر سستا کردیا گیا جس کے بعد مٹی کے تیل کی نئی قیمت 171روپے 61پیسے فی لیٹر ہوگئی ۔ لائٹ ڈیزل آئل 3روپے88پیسے فی لیٹر سستا ہونے کے بعد157روپے 29پیسے فی لیٹر ہوگیا ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی60روپے فی لیٹر برقراررہے گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت کی عوام دوست پالیسیوں نے تیل کے عالمی نرخوں میں مندی سے مل کر ریلیف کی صورتحال پیدا کی ہے مگر اچھا ہوکہ ایک جانب اعلانات جاری کرنے میں یہ احتیاط ملحوظ رکھی جائے کہ غیر ضروری قیاس آرائیوں کو جنم لینے کا موقع نہ ملے، دوسری طرف تیل نرخوں میں کمی کے اثرات ٹرانسپورٹ کرایوں سے لیکر عام ضرورت کی اشیا سمیت ہر مد میں نظر آئیں۔اس باب میں وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں کے تعاون سے نچلی سطح تک اس مشینری کو فعال بنانے کی تدابیر یقینی بنانی چاہئیں جو قیمتوں کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔——–3—اختتام پذیر ہونے والے ہفتے کے دوران مہنگائی میں 0.11فیصد کا معمولی اضافہ دیکھنے میں آیاجبکہ سالانہ بنیادوں پراس کی شرح 21.40فیصد نوٹ کی گئی،جو 29فیصد سے بتدریج گرتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہے۔ سبزی کی قیمتیں جو اپریل میں بلند ترین سطح پر تھیں ،ان میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔پیاز کے نرخ اعتدال کی طرف مائل ہوئے ہیں تاہم ہوٹلوں میں صورتحال بہتر دکھائی نہیں دیتی۔دوسرے شہروں میں ملازمت کرنے والے افراد جن کا گزربسردال روٹی پر ہوتا ہے،ان کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہورہی۔میدہ، آٹا اور سوجی کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود ڈبل روٹی،رسک سمیت بیکری کی اشیا اور مٹھائی پہلے والے نرخوں پر فروخت ہورہی ہے۔یکم جون سے ایل پی جی 3.86روپے فی کلو گرام کم ہوکر گھریلو سلنڈر 45.62روپے سستا ہوا ہے ۔قومی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران 51میں سے 14اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ، 14کے نرخوں میں کمی جبکہ 23کی قیمتوں میں استحکام رہا۔اس وقت روزمرہ اشیائے ضروریہ ،عمارتی، بجلی، ہارڈویئر اور سینیٹری سمیت ہر قسم کے سامان پر 17فیصد جی ایس ٹی نافذ ہے ۔آئی ایم ایف کے دبائو پر آنے والے وفاقی بجٹ میں اس کی شرح بڑھائے جانے کی اطلاعات ہیں ۔اس سے گرتی ہوئی مہنگائی کو پھر ہوا ملے گی اور عام آدمی کی قوت خرید جو پہلے ہی جواب دے چکی ہے ،مزید بوجھ تلے دب جائے گی۔ ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10سے15 فیصد اضافہ سہی، لیکن نجی شعبے سے وابستہ ملازمین کئی برس سے ایک ہی اجرت پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔آئندہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے کا اطلاق ان پر بھی کیا جانا چاہئےتاکہ یہ لوگ بھی حکومتی اسٹریم میں آسکیں۔—–4—–اس وقت آئی ایم ایف کے مطالبات ملکی معیشت کی بحالی کا ہر ممکن راستہ بند کرنے اور عوام کو حکومت اور ریاست کے خلا ف کھڑا کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ حالیہ صورتحال میں آئی ایم ایف پروگرام ملک کیلئے ضروری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آئی ایم ایف ہماری معاشی خود مختاری چھین لے۔ ہم اپنے کالموں میں بار بار حکومت کو یہی مشورہ دیتے رہے ہیں کہ ملکی مفاد کے خلاف کوئی مطالبہ تسلیم نہ کیا جائے۔حکومت نے پیٹرولیم اور دیگر مصنوعات پر 18فیصدکی بھاری شرح سے ٹیکس کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے متبادل تجاویز کا حکم دے کر درست سمت میں بروقت قدم اٹھایا ہے، اس پر قائم رہنا چاہئے۔ متبادل اقدامات کے حوالے سے شہباز شریف کی پچھلی حکومت کی کفایت شعاری رپورٹ بھی اہمیت کی حامل ہے ،جس 70ہزار اسامیاں ختم کرنے اور تقریباََ 80وفاقی محکموں کے باہم انضمام، تشکیل نو یا بند کرنے کی صلاح دی گئی تھی، اگر ان سفارشات پر عمل کرلیا جاتا تو 10کھرب روپے سالانہ بچائے جا سکتے تھے، لیکن ایسا نہ کیا گیا بلکہ اس کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کی خاطر ایک اور کمیٹی بنادی گئی، جو وقت اور پیسے کے زیاں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کے علاوہ انرجی سیکٹر میں سالانہ 28سوارب روپے کیپسٹی پے منٹ کے نام پر ضائع کئے جا رہے ہیں، اسکے بدلے میں پوری بجلی کی جائے یا ادائیگیاں روکی جائیں، حکومت اشرافیہ کو 770ارب روپے کا دیا جانے والا مفت پیٹرول اور بجلی روک کر بچا سکتی ہے، اس کے علاوہ خود اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 17ارب ڈالر کی اشرافیہ کی لوٹ مار کو روک کر بھی اچھی خاصی رقم بچائی جا سکتی ہے۔ 2544ارب روپے کے محصولات سالہا سال سے عدالتی فیصلوں کے سبب زیر التوا ہیں، عدالتوں سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ اس جانب تھوڑی سی توجہ ملکی معیشت کیلئے آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ کفایت شعاری اور اپنے وسائل کو مینج کرنے کے ان شارٹ ٹرم اقدامات سے ہی پاکستان اتنی بچت کرسکتا ہے کہ اسے آئی ایم ایف کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ دوسری جانب عرب ممالک اور خلیج تعاون کونسل کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری صرف ریفائنر یز پالیسی اور سرمایہ کے تحفظ کے حوالے سے ایک ایسی قانون سازی کی منتظر ہے کہ جس پر گزشتہ حکومت میں ہی اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہو چکا تھا، حکومت کو چاہئے کہ یہ قانون سازی جتنی جلدی ممکن ہو، یقینی بنائے تاکہ قرض کی ذلت کے بجائے سرمایہ کاری کا باوقار راستہ اختیار کر کے پاکستانی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے۔ وزیر اعظم خود ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ملکی معیشت قرض امداد سے نہیں بلکہ کاروبار اور سرمایہ کاری سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں چاہئے کہ آئی ایم ایف کو انکار کیا ہے تو اب اپنے اس اسٹینڈ پر کھڑے رہیں اور اپنے وسائل کو ازسر نو منظم کرکے بحران سے نکلنے کی کوشش کریں۔آئی ایم ایف نے پاکستان کو حالیہ مذاکرات میں پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانے کی تجاویز دی تھیں۔ وفاقی حکومت سیلز ٹیکس کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات پر 60روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوری چارج کر رہی ہے—-5—–سیاسی اور معاشی صورتِ حال ابتری کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جس سے آگے نا قابلِ تصّور قومی سانحے نوشتہ ء دیوار دکھائی دے رہے ہیں۔ گویا ہم ایک ایسے آتش فشاں پر بیٹھے ہوئے ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ اگرچہ ہم ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے ہیں جس نے نہ صرف ہمیں کبھی ایک قوم نہیں بننے دیا اور معاشی طورپر ہمیشہ پس ماندہ رکھّا ہے۔ بلکہ یہی سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی ہماری قومی وحدت کیلئے زہر قاتل ثابت ہوئی اور ہمارا ملک صرف 23سال بعد ہی دولخت ہوگیا۔ یہ اس دور میں ہو اجب ہم مکمل طور پر امریکہ اور مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر تھے اور ہمیں ان کے مفادات کی جنگ میں آلہء کار بننے کیوجہ سے انکی طرف سے ملنے والی بھاری مالی اور فوجی امداد پاکستان کے عوام کی بجائے اشرافیہ کے ذاتی تصرّف میں استعمال ہو رہی تھی اس لیے اس سے پاکستانی عوام کو کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ محرومیوں کا شکار ہو تے چلے گئے۔ جنرل ایوب خان سے شروع ہونے والی یہ المناک کہانی جنرل پرویز مشرف کے دور تک چلی جب امریکی سامراج اور اسکے حواریوں نے اپنے مقاصد پور ے ہونے کے بعد اچانک پاکستان سے منہ موڑ لیا اور پاکستان کو دی جانے والی امداد سے ہاتھ روک لیا یوں پاکستان یک و تنہا ہوگیا۔ جس زمانے میں پاکستان کو بھاری امداد مل رہی تھی اس زمانے میں امریکی سامراج نے پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹروں کو پروان چڑھایا اور سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کی بیخ کنی کرنے کیلئے فوجی ڈکٹیٹروں کی مکمل سپورٹ کی۔ کیونکہ فوجی ڈکٹیٹر جس وفاداری کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی اطاعت کر سکتے ہیں، سیاسی رہنما ایسا نہیں کر سکتےکہ سیاسی لوگوں نے ہمیشہ عوام کا سامنا کرنا ہوتا ہے جبکہ فوجی ڈکٹیٹروں کی صرف ایک ہی اننگز ہوتی ہے لہٰذا وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ دوسرے وہ امداد جو پاکستان کو کئی سال تک ملتی رہی ۔ اگر سیاسی بصیرت رکھنے والے سیاسی لوگوں کے دورمیں ملتی تو اس سے مستقبل میں زراعت ، صنعت اور معیشت کے دیگر شعبوں میں ترقی کی بہتر بنیادیں رکھی جا سکتی تھیں۔ ڈکٹیٹروں کے زمانے میں ملنے والی اس امداد نے نہ صرف پاکستان کو سامراجی مقاصد کی تکمیل کیلئے لڑی جانے والی جنگوں کا حصہ بنایا اور غیر ملکی سازشوں کا شکار کیا بلکہ اس خود اعتمادی سے بھی محروم کر دیا جو کسی خود دار قوم کا حِصہ ہوتی ہے جسکے ذریعے وہ اپنے قوّتِ بازو پر انحصار کرکے آگے بڑھتی ہے۔ صرف یہی نہیں اس نے سب سے خوفناک کام یہ کیا کہ ہماری قومی ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا۔ ہمیں حقیقت پسندانہ روّیے اپنا نے کی بجائے فکری اور نظری ابہام میں مبتلا کر دیا جس نے ہمارے قومی مستقبل کے تانے بانے بکھیر کر رکھ دئیے ۔