سیاسی لڑائی بمقابلہ سرکاری لڑائی ۔۔۔۔ملک خداداد کے اندر کافی عرصے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات اور جاری کشمکش کے بارے میں تو ہم سب کو معلوم ہے ۔اور یہ بھی کہ تحریک انصاف والوں نے اس لڑائی کو کچھ زیادہ ہی مسالے دار بنایا ہے۔ کہ انہوں نے اس میں ذاتی حملوں اور گالم گلوچ کا تڑکا لگا دیا ہے ۔اور اس کے نتیجے میں ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی سیاسی اور سماجی کلچر خراب ہو چکا ہے ۔اس جاری آویزش کا مزید نقصان یہ ہے کہ سوسائٹی کے اندر عدم برداشت بڑھ رہا ہے اور لوگ معمولی بات پر مشتعمل ہوجاتے ہیں ۔سیاسی وابستگی کی بنیاد پر نفع و نقصان پہنچانے کا رواج اب سرکاری محکموں اور ان کے ملازمین میں بھی سرایت کر چکا ہے ۔یعنی جب ایک پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو اس کے وفادار یا اس سے وابستہ افسران و ملازمین کس حد تک فوائد حاصل کرتے ہیں ۔لیکن جب دوسری پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو سابقہ حکومت کے قریبی سرکاری لوگ زیر عتاب ٹہر جاتے ہیں اور ان کو نئے نظام کے لوگ تختہ مشق بنا دیتے ہیں ۔اور یوں سیاسی لڑائی سرکاری لڑائی میں بدل جاتی ہے ۔ جس سے سول سروس اور بیوروکریسی میں خطرناک گروپنگ شروع ہو جاتی ہے جو کسی بھی لحاظ سے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔اس سرکاری لڑائی کی ایک تازہ ترین مثال یہ ہے کہ پی ڈی ایم PDM حکومت میں مولانا فضل الرحمان صاحب کا فرزند اسد محمود صاحب وزارت مواصلات کا وفاقی وزیر تھا ۔انہوں نے مواصلات اور پوسٹ آفس کے محکموں میں بھرتیوں کے احکامات جاری کیے کیونکہ ان محکموں میں کافی عرصے سے بہت زیادہ خالی آسامیوں پر کوئی بھرتی نہیں ہوئی تھی ۔اس اہم کام کو سر انجام دینے میں اس وقت کے سیکرٹری مواصلات اور ڈائیرکٹر جنرل پوسٹ آفیس پیش پیش تھے ۔اور پورے پاکستان میں بھرتیوں کا سلسلہ مکمل کیا گیا ۔لیکن جب پی ڈی ایم حکومت کا خاتمہ ہوا تو ایک کٹر مسلم لیگی نگران وزیر مواصلات نے ان بھرتیوں کی انکوائری کا فیصلہ کیا اور دو ایسے افراد کو سیکرٹری مواصلات اور ڈی جی پوسٹ آفس لگا یا جو مولانا صاحب سے بوجوہ خوش نہ تھے۔ ان دو افسران نے ایک زبردست چال چلی اور ان افسران کا ایک گروپ بنایا جو مولانا کے بیٹے کی وزارت میں اچھی پوسٹوں پر نہ تھے اور یا گھروں سے دور تھے ۔اور اتفاق سے یہ افسران پی ٹی آئی سے گہری وابستگی رکھتے تھے ۔یہ افسران تو ایسے موقع کی تلاش میں تھے ۔لہذا اس گروپ نے بھرتیوں کی انکوائری کے نام پر ذاتی انا کی تسکین کی جنگ شروع کردی۔اور ایسی بھرتیاں جن کی ساری کارروائی ایک سال پہلے مکمل ہوچکی تھی ۔ان کے بارے میں ملک کے طول و عرض میں انکوائری کے نام پر ختم نہ ہونے کا سلسلہ شروع کیا ۔جو اب تک جاری ہے۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان صاحب نے خود بھی اس کا س ت نوٹس لیا ہے کیونکہ آج کی بے روزگاری میں نوجوانوں کو باعزت روزگار دینا بہت اہم خدمت ہے اور یہ کہ ایسی انکوائری ایک اچھے کام کے لئے مولانا کے خاندان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔اسی لئے قریبی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ مولانا صاحب نے شھباز شریف صاحب کی حکومت سے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے ۔لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ حکومت کے لیول پر کوئی بھی کام ہو اس کو سر انجام دینے کی زمہ داری سرکاری افسران کی ہوتی ہے ۔لیکن سرکاری کام و فرائض کی بجاآوری کی سزا افسران کو ہرگز نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس سے بہت سے افسران کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔لہذا انتقامی بنیاد پر انکوائریوں کا خاتمہ ہونا چاہئے جیسے کہ یوسف رضا گیلانی صاحب نے کہا تھا کہ لوگوں کو روزگار فراہم کرنا گناہ نہیں ۔