*طالبان کے زیراقتدار افغانستان میں بچوں کی حالت زار*طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں عورتوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی طالبان کی ناکام اقتصادی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئےافغانستان میں خواتین اور بچوں کےبنیادی حقوق کی پامالی طالبان کی ناقص پالیسیوں کامنہ بولتاثبوت افغانستان کے صوبےننگرہار کے ایک ضلع میں تقریباً 6000 بچے جبری مشقت پر مجبوربچوں کے اہل خانہ نے معاشی مشکلات اور شدید غربت سے تنگ آکر بچوں کو کام کرنے پر مجبور کردیا ہے افغانستان کے باقی صوبوں میں بھی بچوں کےحالات کچھ مختلف نہیںیونیسیف کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت 40 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں غربت اور تعلیم سے محرومی بچوں کو جبری مشقت، کم عمری کی شادیوں اورانسانی سمگلنگ کی بے رحم دنیا میں دھکیل رہی ہے، یونیسکو کی رپورٹ جبری مشقت پر مجبور بچوں میں سےکچھ کی عمریں 10 سال سے بھی کم ہیں مگر وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے پر مجبور ہیںافغانستان میں بچوں کی مزدوری کی دلخراش اور تلخ حقیقت کچھ ایسی ہے؛میری خواہش سکول جانے کی ہے، مگر مزدوری کرنا ایک مجبوری ہے، چائلڈ لیبر بلالمجھے پڑھنےکا بہت شوق ہے مگر طالبان نے ہم لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے، چائلڈ ورکر بشراننگرہار میں بچوں کی مزدوری، کم عمری کی شادی، اور بندھوا غلامی جیسے مسائل حل طلب ہیںافغانستان کے بچے بنیادی حقوق اور تعلیم سے محروم ہیںآخر کب تک طالبان افغانستان میں خواتین اور بچوں کو انکے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھیں گے؟