افغانوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے معاملے میں ملوث نادرا اہلکاروں کی گرفتاری کا امکان ،ایف آئی اے نے ملوث افراد کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا، ایف آئی اے کی تحقیقات آخری مراحل میں داخل، ذمہ دار نادرا اہل کاروں کا تعین کرلیا گیا، ذمے داران نے افغانوں کو شناختی کارڈ اجرا کیلئے پاکستانی خاندانوں کا رکن ظاہرکیا۔پاسپورٹ دفترکے قریب سے ایک افغان سمیت ایجنٹوں کی گرفتاری کے بعد تحقیقات کا آغازکیا گیا تھا۔ مجیب اللہ نامی افغان شہری پاکستانی شناختی کارڈ پرپاکستانی پاسپورٹ حصول کا خواہشمند تھا۔نادرا سے مجیب اللہ کو پاکستانی خاندان کا رکن ظاہر کئے جانے والی فیملی کوجاری کارڈز کا ریکارڈ طلب کیا گیا۔تحقیقات میں نادرا کی جانب سے ریکارڈ فراہمی کے بعد متعلقہ نادرا اہلکاروں کے بیانات لئے گئے۔تحقیقات کے آخری مرحلے میں مبینہ طور پرملوث نادرااہلکاروں کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ نادرا کی جانب سے بھی محکمانہ تحقیقات میں متعلقہ اہلکاروں کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق مبینہ طور پر ملوث نادرا اہلکاروں کی گرفتاری جلد عمل میں لائی جائے گی ، نادراکی جانب سے بھی محکمانہ تحقیقات میں متعلقہ اہلکاروں کےخلاف ایکشن لیا گیا۔یاد رہے کہ افغان شہریوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری ہونے کے حوالے سے ایف آئی اے نے نادرا اہلکاروں کی تفصیلات طلب کی تھیں۔وفاقی تحقیقاتی ادارے نے افغان شہریوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری ہونے کے معاملے پر تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے نادرا سے جاری 6 پاکستانی شناختی کارڈز کی تفصیلات مانگی تھیں۔ ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل سے جاری مراسلے میں تفصیلات اور متعلقہ ریکارڈ فراہمی کا کہا گیا تھا۔ایف آئی اے کے مطابق 6شناختی کارڈز مبینہ طور پر غیر ملکیوں کو جاری کئے گئے شناختی کارڈز پراسیس کرنے والے اہلکاروں کے نام، سسٹم لاگ ان کی سرکاری تفصیلات سمیت فارم کے تصدیق کنندہ کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔ طلب کردہ تفصیلات میں ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار زرداد نامی افغان شہری کو محب اللہ کے نام سے جاری شناختی کارڈ بھی شامل تھا۔محب اللہ کی مبینہ ماں امیراں بی بی سمیت 4 دیگر شناختی کارڈز کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔ افغان شہری زرداد کو محب اللہ کے نام سے شناختی کارڈ اجرا ءکیلئے مبینہ طور پر امیراں بی بی کے خاندان میں شامل کیا گیاتھا۔ نادرا کو ارسال مراسلے میں ریجنل ہیڈکوارٹرز نادرا کے ڈائریکٹر آپریشنز کو بھی درکار ریکارڈ کے ہمراہ پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیسکو نے سولرگرین میٹرپر عائد پابندی ختم کر دی،ڈائریکٹر کسٹمر سروسز نے پابندی ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا،جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پندرہ اکتوبر بائی ڈائریکشنل گرین میٹر نصب کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے جس کے بعد صارفین کو بائی ڈائریکشنل گرین میٹر کا این او سی دیا جائیگا۔ مارکیٹ میں گرین میٹرزکے متبادل اے ایم آئی میٹردستیاب نہیں ہیں، مارکیٹ میں اے ایم آئی میٹر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے سولر گرین میٹر پر عائد پابندی ختم کی گئی ہے۔یہ بھی بتایاگیا ہے کہ کمپنیوں کے پاس کئی ماہ تک نئے اے ایم آئی میٹرز دستیاب نہیں ہوں گے۔لیسکو نے یکم جولائی سے گرین کی بجائے اے ایم آئی میٹرز لگانے کا حکم دیا تھا تاہم اے ایم آئی میٹرز کے نوٹیفکیشن پر قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سامنے آیا۔جبکہ میٹر ساز کمپنیوں کے پاس سٹاک کی کمی کی وجہ سے میٹرز فراہمی ناممکن ہو رہی تھی۔ گرین میٹرز پر پابندی کے بعد اے ایم آئی میٹرز کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا تھا۔گرین میٹر کی قیمت 35 ہزار جبکہ اے ایم آئی کی قیمت 63 ہزار روپے تھی۔ لیسکونے جلدبازی میں گرین میٹرپرپابندی لگا دی تھی۔یاد رہے کہ اس سے قبل لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی ( لیسکو ) نے سولر سسٹم میں استعمال ہونے والے گرین میٹرز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ گرین میٹرز کی جگہ اے ایم آئی میٹرز لگانے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ ڈائریکٹر کسٹمر سروسز نے گرین میٹر پر پابندی لگانے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔لیسکو کی جانب سے سولرکنکشن کیلئے اے ایم آئی میٹرز کی خریداری کا این او سی دیاجائے گا۔این او سی کی بنیاد پر صارفین مارکیٹ سے میٹرز کی خریداری کریں گے۔اے ایم آئی میٹرز کی خریداری سے صارفین پرتقریباً 20ہزارروپے کااضافی بوجھ پڑے گا۔اے ایم آئی میٹرز نصب ہونے سے اووربلنگ اور بجلی چوری میں کمی ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صنم جاوید کو گرفتاری سے بچانے کیلئے خیبرپختونخوا حکومت ایکشن میں آگئی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے بعد طویل عرصہ بعد جیل سے رہائی پانے والی صنم جاوید کو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر صنم وفاقی دارالحکومت میں واقع خیبرپختونخوا ہاؤس منتقل کردیا گیا ہے۔اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے ترجمان یار محمد نیازی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور صنم جاوید کے والد اور شوہر کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے، صںم جاوید کو اسلام آباد میں خیبرپختونخوا ہاؤس میں صوبے کے وزیراعلیٰ ہی کی ہدایت پر منتقل کیا گیا ہے، صنم جاوید کو اکیلے وہاں منتقل نہیں کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ ان کی پوری فیملی ہے۔بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعرات تک گرفتاری سے روکتے ہوئے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صنم جاوید کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے صنم جاوید کے خلاف درج تمام مقدمات اور پچھلے ایک سال کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کر لیا، اس سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے صنم جاوید کے والد اقبال جاوید خان کی درخواست پر سماعت کی، دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات تک پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی گرفتاری سے روکتے ہوئے صنم جاوید کو رہا کرنے کا حکم دیا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل میاں علی اشفاق کو ہدایت کی کہ ’جمعرات تک صنم جاوید اسلام آباد سے باہر نہیں جائیں گی، جمعرات کو اس حوالے سے مزید سماعت ہو گی، اس دوران صنم جاوید کو کہیں خاموش رہے‘، اس کے بعد وکیل میاں علی اشفاق پی ٹی آئی رہنماء صنم جاوید کو لے کر عدالت سے روانہ ہوگئے۔اس سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو صنم جاوید کو وفاقی دارالحکومت کی حدود سے باہر لے جانے سے روک دیا تھا ، ، عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور ڈی جی ایف آئی اے کو صنم جاوید کے کیس میں ذاتی حیثیت میں طلب کیا، صنم جاوید کو بھی ہائیکورٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا، عدالتی فیصلہ سن کر صنم جاوید کے والد اور والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئے۔