ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں صرف ایک ہفتہ کے دوران ڈکیتی قتل کے 2واقعات اقبال ٹاؤن میں بیٹے کے سامنے پروفیسر باپ کا اورہڈیارہ میں باپ کے سامنے نوجوان بیٹے امیر معاویہ کا قتل رونما ہوجانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ڈکیتی قتل کے علاوہ چوری‘ ڈکیتی اور لوٹ مار کے کیسوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء میں لاہور میں 2 لاکھ 50ہزار جرائم رپورٹ ہوئے‘ 2023ء میں یہ تعداد دو گنا ہو کر 3 لاکھ 90 ہزار تک پہنچ گئی اور رواں سال کے صرف پہلے چار ماہ کے دوران ایک لاکھ 40 ہزار جرائم رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ اَن رپورٹڈ کیسز اس کے علاوہ ہیں۔ اگر صوبائی دارالحکومت میں‘ جہاں پولیس فورس کو تمام وسائل دستیاب ہیں‘ امن و امان کی صورتحال اتنی ناگفتہ بہ ہے تو صوبے کے دور دراز علاقوں کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آخر کیا وجوہ ہیں کہ وسائل اور فورس کی دستیابی کے باوجود پنجاب کا صوبائی دارالحکومت جرائم کا گڑھ بنتا جا رہا ہے‘ جہاں شہری اب نہ اپنی جان محفوظ سمجھتے ہیں اور نہ ہی مال۔ شہر میں کئی قسم کی پولیس فورس تعینات ہونے کے بعد بھی جرائم میں روز افزوں اضافہ شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت پولیس حکام کا فرضِ منصبی ہے۔ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ اس ضمن میں کسی بھی کوتاہی کا مرتکب ہوئے بغیر پوری قوت کے ساتھ شہر سے جرم اور جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ یقینی بناکر شہریوں کو تحفظ کا احساس دلائیں۔جس میں وہ کامیاب ہوتے دیکھائی نہیں دے رہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ لاہور انتشار اور انارکی کا شکار ہے۔ اچانک ایسی صورتِ حال کیوں پیدا ہوئی؟ اس کے اسباب جاننے اور ان کا تدارک کرنے کی فوری ضرورت ہے۔تھوڑے تھوڑے وقفے سے ٹی وی اسکرینز پر اسٹریٹ کرائمز اور ڈاکوؤں کی فائرنگ سے نہتے شہریوں کے مرنے کی خبریں آ رہی ہوتی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب ڈاکووں سے مزاحمت پر شہری زخمی یا جاں بحق نہ ہوتے ہوں۔شہر میں اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں پولیس مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ ڈکیتی مزاحمت پر شہریوں کی ہلاکت اور لوٹ مار کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ 12مئی کوہڈیارہ میں انتہائی افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں کریانہ سٹور پر ڈاکوؤں نے مزاحمت پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 20 سالہ امیر معاویہ دم توڑ گیا،مقتول کا والد بھی اس دوران دکان میں موجود تھا۔ اسی طرح ایک روز قبل ہفتہ کی شام اقبال ٹاؤن میں ڈاکوؤں نے منی ایکسچینج سے5600 سعودی ریال گھر لے جانے والے ایک ایس ایس ٹی ٹیچرفاروق اعظم اور اس کے پروفیسربیٹے محمد شعیب پر فائرنگ کر کے رقم لوٹ لی اور فرار ہوگئے۔دونوں زخمی باپ بیٹے کو جناح ہسپتال لے جایا گیا جہاں باپ دم توڑ گیا جبکہ بیٹے کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال داخل کروایا گیا ہے مقتول زخمی بیٹے اور بیوی کے ہمراہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانے کی تیاری کررہے تھے کہ ڈاکوؤں نے آلیا 12مئی کو ہی وحدت کالونی میں شہری کی فائرنگ سے 2 مبینہ ڈاکونصیر اور شفیق زخمی ہو ئے جنہیں جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں نصیر کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نصیر ریکارڈ یافتہ ہے جس کے خلاف مختلف تھانوں میں کئی مقدمات درج ہیں۔اندرون شہر میں ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے پولیس اہلکار کو ذخمی کردیا اور فرار ہوگئے۔شہر میں روزانہ 3درجن سے ذائد ڈکیتی،راہزنی اور چوری کی وارداتیں سرذد ہونا انتہائی افسوس ناک ہے اورشہریوں نے پولیس سے مایوس ہو کر قانون کو خود ہاتھ میں لینا شروع کر دیا ہے۔ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک شخص مال روڈ کرنسی شاپ سے رقم لے کر نکلتا ہے اور موٹر سائیکل سوار کئی کلومیٹر تک تعاقب کرکے سرشام اس سے رقم لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں اور فائرنگ کرکے ایک کو موت کے گھاٹ اور دوسرے کوزخمی کردیتے ہیں۔تو یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکوسر عام دندناتے پھر رہے ہیں۔گزشتہ ایک ماہ کے دوران لاہور میں 27افراد کو قتل کردیا گیا جبکہ اس دوران 4پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے شہید اور 6کو زخمی بھی کیا گیا ہے۔ مبینہ مقابلوں کے دوران 6ڈاکو مارے بھی گئے،ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ذخمی ہونے کے واقعات معمول بن جارہے ہیں یہ ذخمی یا تو زندگی بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں یا بعد ازاں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔لوٹ مار کی کئی وارداتوں میں لوگ روزانہ کروڑوں روپے کی اشیاء یا نقد رقوم سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بے شمار ایسی وارداتیں ہوتی ہیں، جو پولیس اور میڈیا میں رپورٹ بھی نہیں ہوتیں۔ کاریں، موٹر سائیکلیں اور موبائل فونز چھیننے کی سب سے زیادہ وارداتیں بھی لاہور میں ہوتی ہیں۔ ان میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔لاہور کی زیادہ تر کچی اور گنجان آبادیوں پر ڈرگ مافیا کا کنٹرول ہے، اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے مبینہ پولیس مقابلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لاہورمیں ماہانہ درجن سے زائد پولیس مقابلے ہو رہے ہیں، جن میں بعض اوقات بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں میں راہ گیر بھی زد میں آجاتے ہیں۔ غرض لاہور میں ہر طرف خوف کی فضاہے۔ایک طرف لوگوں کو جرائم پیشہ افراد کا اور دوسری طرف پولیس مقابلوں کا خوف ہے۔ لاہورکے شہری شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ امن وا مان کی صورتِ حال قابو میں آنے کی بجائے مذید خراب ہوتی جا رہی ہے اور سماجی انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔طویل عرصے تک دہشت گردی کے عذاب میں رہنے والا لاہور اب سٹریٹ کرائمز اور منشیات کے عذاب میں مبتلا ہے۔ لاہور پنجاب کا ”اکنامک ہیڈ کوارٹر“ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سواکروڑ سے زیادہ لوگوں کا مسکن ہے۔ لاہورکی بدامنی سے نہ صرف ملکی معیشت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ اس بدامنی سے کچھ قوتیں اپنے بعض سیاسی اور دیگر اہداف بھی حاصل کرتی ہیں۔ ویسے تو دنیا کے بڑے شہروں میں اسٹریٹ کرائمز ہوتے ہی ہیں لیکن اس وقت جس طرح لاہور میں ہو رہے ہیں، یہ معمول سے بہت زیادہ ہیں۔ اسے ”کرائم ویو“ یعنی جرائم کی لہر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاہورپولیس نے درجنوں گینگ گرفتار کرکے کروڑوں نہیں اربوں روپے کی ریکوری بھی کی ہے فری رجسٹریشن سے جرائم کی شرح میں اضافہ دکھائی دیتا ہے حقیقت میں جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔