چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، آئی ایم ایف نے یہ تونہیں کہا کہ عمر کی بالائی حد میں رعایت دیں، 20سال اور30سال نوکری کرنے والے کوبھی پینشن دیتے ہیں، کم ازکم 30سال ملازم سے کام توکروائیں۔پا کستان قرضوں میں ڈوب گیا ہے، آئی ایم ایف کے پاس چلے جائیں گے اوربھیک مانگیں گے، عمرکی بالائی حد میں رعایت دینے سے پاکستان کے لوگوں کوکیا فائدہ ہوتا ہے۔ 77سال پاکستان کو بنے ہوئے ہوگئے ہیں، قرضوں میں ڈوبے جارہے ہیں۔عمر کی حد میں رعایت دینے کاآغاز 1961میں ہوا، آمر کازمانہ آگیا، ایوب خان تھے ان کو توکوئی چھوہی نہیں سکتا۔ ایک سیکشن افسر نے رول بنادیا ساراپاکستان اس کے تابع ہے، پاکستان کی اس طریقہ سے تباہی کررہے ہیں، یہ خیراتی چینل بنادیا، صدرکا لکھا، وزیر اعظم کالکھا، چیف جسٹس اوراٹارنی جنرل کاکیوں نہیں لکھا کہ وہ بھی عمرکی بالائی حد میں رعایت دے سکتے ہیں۔ انتظامیہ ،مقننہ کے تابع ہے اُس نے اختیار نہیں دیا،پینشن کابل پاکستان کو دبائے جارہا ہے، میں بادشاہ ہوں جومرضی کروں، آئین کہتا ہے کہ کوئی اختیارنہیں ہوگا یاتو 35سال عمر کردیں۔
صدر اور وزیر اعظم کیوں رعایت دے سکتا ہے، وجہ بتائیں۔ میرٹ پرآنے والوں کوتورعایت نہیں دینی اور جو میرٹ پر نہیں انہیں رعایت دینی ہے چیف سیکرٹری سندھ کے پاس بڑے اختیارات ہیں وہ 15سال عمر کی بالائی حد میں رعایت دے سکتا ہے، ہم یہ کردیتے ہیں کہ جوعمر کی بالائی حد میں رعایت دے وہ اپنی جیب سے پینشن دے ، صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ جو بھی رعایت دے وہ پینشن دے۔ یہ صاحب توچھوڑ دو، یہ آزاد ملک ہے، غلامی کی ذہنیت ہی نہیں جائے گی، چیف سیکرٹری صاحب۔ جب اشتہاردیں تو مرووں کے لئے عمر کی حد30سال اورخواتین کے لئے 35سال مقررکردیں ہم اس کو چھوئیں گے بھی نہیں، ہم صوابدیدی اختیارواپس لیں گے، کیوں عمر کی بالائی حد میں رعایت دیں۔ کیوں عمر کی بالائی حد کالفظ استعمال کررہے ہیں اس لفظ کوختم کریں۔ کیوں رعایت ہو، کیوں چوردروازہ کھول رہے ہیں۔ جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اس قانون کااتناغلط استعمال کیا گیا ہے کہ اپنے من پسند لوگوں کو 10،10سال12،12سال رعایت دی گئی۔ بچے ڈگریاں لے کراِدھر سے اُدھرجارہے ہیں۔ جبکہ عدالت نے تمام صوبائی حکومتوں اوروفاقی حکومت کو 12جولائی 2024کے حکم کی روشنی میں عمر کی بالائی حد کے حوالہ سے دوبارہ تحریری جواب جمع کرونے کاحکم دیتے ہوئے قراردیا ہے کہ جواب میں تمام رولز، ریگولیشنز اور نوٹیفکیشنز کاحوالہ دیا جائے۔وفاق کے جواب پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اوراٹارنی جنرل جبکہ صوبوں کے جواب پر چیف سیکرٹریز، متعلقہ سیکرٹریز اورایڈووکیٹ جنرلز کے دستخط کے ساتھ جمع کروائے جائیں۔
عدالت نے ایک ماہ میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 4رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روزچیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ، پشاوراوردیگر کی جانب سے ماجدخان، میجرطاہرزمان اوردیگر کی جانب سے عمرکی بالائی حد میں رعایت کے حوالہ سے دائر دودرخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے 12جولائی2024کو درخواست کی سماعت کے دوران سرکاری ملازمت کے لئے عمر کی بالائی حد میں رعایت دینے کے معاملے کانوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت اورچاروں صوبوںکو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا گیا تھا۔ عدالتی نوٹس پر وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسداللہ خان، صوبہ پنجاب کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق، صوبہ سندھ کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سیف اللہ، صوبہ خیبر پختونخوا کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس اور صوبہ بلوچستان کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان محمد ایازخان سواتی پیش ہوئے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سوالوں کے جواب دیئے ہیں یادیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسد اللہ خان نے بتایا کہ انہوں نے جواب جمع کروادیا ہے،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ میں جواب جمع کروادیا ہے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ وہ جواب لائے ہیں تاہم جمع نہیں کروایاجوبعد ازاں جمع کروادیا گیا، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ انہوں نے جواب جمع کروادیا ہے جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ انہیں صرف نوٹس جاری ہوا ہے جواب طلب نہیں کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کارانا اسداللہ خان کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سب سے پہلے وفاق کامئوقف سن لیتے ہیں، کدھر آپ کامئوقف ملے گا، کون بالائی عمرکی حد میں رعایت دیتا ہے، خودبخود ہوتا ہے یاکوئی آرڈر پاس کرناہوتا ہے۔ رانااسداللہ خان کاکہنا تھا کہ خودبخود ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس کی بنیادی وجہ سمجھائیں، کوئی شخص وفاقی حکومت کاملازم اُس وقت بنے گاجب وہ بھرتی ہوگا، کیوںکاجواب دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈرائیونگ لائسنس18سال کی عمر میں ملتا ہے تواس کاجواب دیں گے، بندوق کالائسنس بچے کوتونہیں دیتے، نوٹس دینے کامقصد ہے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کون سے ایکٹ کے تحت رول بنتے ہیں، عمر میں رعایت والا سیکشن بتائیں،پہلے قانون میںبتائیں گنجائش ہے ،لاء افسر کے طورپر ایکٹ کریں، ذاتی مسئلہ نہ سمجھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں قانون کی کلاس میں پڑھایا گیا تھا کہ رول بنانے کے لئے وہ پاور استعمال ہوگی جوقانون میں ہے، اگراختیار نہیں تواستعمال کیسے کررہے ہیں،بیچ میں بنیادی طور پر کہاں سے آجاتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رولز وہ بناسکتے ہیں جس کاتذکرہ ہو، عمر کی بالائی حد میں رعایت کارول بناسکتے ہیں یہ بتادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ مقننہ کے تابع ہیں، حکومت مقننہ کے تابع ہے، اگر پارلیمنٹ نے اختیاردیا ہے توآگے بڑھتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ اس قانون کااتناغلط استعمال کیا گیا ہے کہ اپنے من پسند لوگوں کو 10،10سال12،12سال رعایت دی گئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عمر 30سال لکھتے ہیں اوراپنے 35سالہ بندے کو بھرتی کرلیتے ہیں، کبھی کبھی ہم تھوڑی عقل بھی استعمال کرلیا کریں، ایک سیکشن افسر نے رول بنادیا ساراپاکستان اس کے تابع ہے، پاکستان کی اس طریقہ سے تباہی کررہے ہیں، یہ خیراتی چینل بنادیا، صدرکا لکھا،
وزیر اعظم کالکھا، چیف جسٹس اوراٹارنی جنرل کاکیوں نہیں لکھا کہ وہ بھی عمرکی بالائی حد میں رعایت دے سکتے ہیں، یا توکہیں 30سال ایٹمی سائندان نہیں ملا، پھر بے شک عمر کی حد بڑھادیں، بیک ڈور کیوں کھول رہے ہیں۔ چیف جسٹس کارانا اسداللہ خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ معاونت کریں یا بیٹھ جائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انتظامیہ ،مقننہ کے تابع ہے اُس نے اختیار نہیں دیا،پینشن کابل پاکستان کو دبائے جارہا ہے، میں بادشاہ ہوں جومرضی کروں، آئین کہتا ہے کہ کوئی اختیارنہیں ہوگا یاتو 35سال عمر کردیں۔ چیف جسٹس کارانا اسداللہ خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب کچھ کہنے کو نہ ہوتوبنیادی طور پرکہہ دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلا مرحلہ طے نہیں کررہے آئین کامرحلہ تواورمشکل ہو گا، آئین کاآرٹیکل 27پڑھیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس کومرضی عمر کی حدمیں رعایت دے دیں، میں نے اپنے بندے کو دینا ہے، 500بندے آئیں گے اورایک درخواست آجائے گی نوکری اُس کو مل جائے گی۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ صرف حکومت کے ملازمین کو ٹیکس دہندگان پیسے دیتے ہیں، پرائیویٹ سیکٹر کو حکومت پیسے نہیں دیتی وہ جو مرضی کرے اور جس کومرضی رکھے، صدر اور وزیر اعظم کیوں رعایت دے سکتا ہے، وجہ بتائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس دوسراجھگڑآیا تھا کہ وفاق کے رولز صوبوں پر لاگونہیں ہوتے۔ چیف جسٹس کارانا اسداللہ خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کس سیکشن افسر نے جواب لکھا ہے، پاکستان چلا ہی سیکشن افسر رہا ہے،جو نیچے سے ترقی کرکے سیکشن افسر بنتا ہے،کیا جواب پر دستخط کئے، کس کی ہدایت پر جواب دائر ہوا ہے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، سیکرٹری کابینہ ڈویژن کس کے دستخط ہیں۔ رانا اسداللہ خان کاکہنا تھاکہ جواب اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے تیار کیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے جواب پر دستخط کیئے ہیں، کیا وہ سرکاری ملازم ہے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ فیصلہ پورے پاکستان کومتاثر کرے گااگر ہم اِس کو اڑادیتے ہیں ، سیکشن افسر اسٹیبلشمنٹ ڈوژن پورے پاکستان کوچلا رہا ہے، کیا اٹارنی جنرل کاآفس اُس کے تابع ہے، ہمارے ساتھ مذاق کررہے ہیں، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جواب پر دستخط نہیں کرسکتا تھا؟اس موقع پر رانا اسد اللہ خان نے عدالت سے استدعا کی کہ مزید مہلت دے دیں ہم نیاجواب جمع کروادیں گے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 12جولائی کو حکم دیا تھا ، اگرزبانی دلائل دینا چاہیں تودے دیں ہم سن لیتے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھاکہ 40یا45سال کی عمر کے بندے کوکیوں لگائیں، قانون میں لکھا ہے کہ آرمی والے کو 15سال رعایت ہوگی، سرکاری ملازم کو 10سال رعایت ہوگی، معذور کو10سال رعایت ہوگی، اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو3سال رعایت ہوگی، وزیر اعلیٰ بلوچستان کو خصوصی اختیار حاصل ہے،سی ایس ایس میں رعایت نہیں ہوتی کیوں کہ وہاں پر بچے پڑھ کر میرٹ پرآتے ہیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بھیک ما