قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے دو ماہ سے زائد تاخیر کے بعد بالآخر جمعرات کو طاقتور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) سمیت 40 قائمہ کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے باضابطہ اعلامیہ کے مطابق سپیکر نے 17 مئی کو قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی تحریک کی روشنی میں کمیٹیوں کے ارکان کے ناموں کو حتمی شکل دے دی ہے۔ایوان کی قائمہ کمیٹیاں حکومت کی متعلقہ وزارتوں کے کام کی نگرانی اور احتساب کا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پارلیمانی جمہوریتوں میں کمیٹیوں کو پارلیمان کا ’آنکھ، کان، ہاتھ اور دماغ‘ سمجھا جاتا ہے۔قائمہ کمیٹیاں ایوان کی طرف سے بھیجے گئے بلوں کی جانچ کرتی ہیں اور اپنی رپورٹیں ایوان کو پیش کرتی ہیں۔قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں خصوصی دفعات شامل ہیں جو قائمہ کمیٹیوں کو متعلقہ وزارت اور اس سے متعلقہ عوامی اداروں کے اخراجات، انتظامیہ، تفویض کردہ قانون سازی، عوامی درخواستوں اور پالیسیوں کا جائزہ لینے کا اختیار دیتی ہیں اور اپنی نتائج اور سفارشات کی رپورٹ وزارت اور وزارت کو بھجوا سکتی ہیں۔قاعدہ 200 کے تحت قواعد کے تحت 3 مارچ کو وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد تمام قائمہ کمیٹیاں اور ان کے اراکین کو تیس دن کے اندر اسمبلی کے ذریعے منتخب کرنا ضروری ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں میں کسی کون سی کمیٹی دی جائے پر اختلاف کی وجہ سے اس مرتبہ یہ تشکیل تاخیر کا شکار رہیاگرچہ قومی اسمبلی کے اعلامیے میں کمیٹی سربراہان کے نام نہیں دیئے گئے لیکن اطلاعات ہیں کہ متفقہ فارمولے کے مطابق اب اپوزیشن سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کو دس کمیٹیوں کی سربراہی ملے گی، جن میں اہم پبلک اکاون کمیٹی بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کو 13 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو بالترتیب آٹھ اور دو کمیٹیوں کی چیئرمین شپ ملے گی۔ باقی کمیٹیوں کی چیئرمین شپ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں میں تقسیم کی جائے گی۔ابتدائی طور پر تحریک انصاف کے شیر افضل مروت کو پی اے سی چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا تھا تاہم بعد میں اس عہدے کے لیے شیخ وقاص اکرم کو نامزد کرنے کا فیصلہ کیا تھانوٹیفکیشن کے مطابق پی اے سی کے ارکان میں وزیر دفاع خواجہ آصف، سردار یوسف زمان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، جنید انور چوہدری، شیذرا منصب کھرل، رضا حیات ہراج اور مسلم لیگ ن کے رانا قاسم نون شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ محمود، شازیہ مری، سید حسین طارق، سید نوید قمر اور حنا ربانی کھر۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان بطور آزاد؛ ثناء اللہ مستی خیل، جنید اکبر، ریاض خان، وقاص اکرم، عامر ڈوگر اور ایس آئی سی کے خواجہ شیراز محمود، ایم کیو ایم پی کے معین عامر پیرزادہ اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کی شاہدہ بیگم شامل ہیں۔تشکیل کردہ قائمہ کمیٹیوں میں قائمہ کمیٹی برائے ہوا بازی، قائمہ کمیٹی برائے کابینہ ڈویژن، قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ، قائمہ کمیٹی برائے تجارت، قائمہ کمیٹی برائے مواصلات، قائمہ کمیٹی دفاع، قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار، قائمہ کمیٹی برائے اکنامک افیئرز ڈویژن، قائمہ کمیٹی برائے توانائی و پیٹرولیم ڈویژن، قائمہ کمیٹی برائے فیڈرل ایجوکیشن پروفیشنل ٹرینگ نیشنل ہیریٹیج و کلچر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و مالیات، قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور، قائمہ کمیٹی برائے حکومتی یقین دہانیاں، قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف، صنعت و پیداوار، قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات، قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن، قائمہ کمیٹی برائے داخلہ،قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ، قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان، قائمہ کمیٹی برائے میری ٹائم افیئرز، قائمہ کمیٹی برائے نارکوٹکس کنٹرول، قائمہ کمیٹی برائے تحفظ خوراک و تحقیق، قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز و ریگولیشن اینڈ کوارڈینیشن، قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی افرادی قوت و ترقی، قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ ڈیویلپمنٹ و خصوصی اقدامات، قائمہ کمیٹی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ ڈویژن،قائمہ کمیٹی برائے انرجی پاور ڈویژن، قائمہ کمیٹی برائے نجکاری، ریلویز، قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور بین المذاھب ہم آہنگی، قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاق، قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، قائمہ کمیٹی برائے اسٹیٹ اینڈ فرائنٹیر ریجنز، قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل، قائمہ کمیٹی ہاؤس اینڈ لائبریری اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پی اے سی شامل ہیں۔اس سے قبل سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی رہنما عرفان صدیقی کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوگئے۔