وادی تیراہ میں افیون کی فصل تباہ! فوجی ترجمان کا بڑا انکشاف — “غزہ میں امن فوج کی شمولیت کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی! تفصیلات بادبان ٹی وی پر

*ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھری کی صحافیوں سےغیررسمی گفتگو*غزہ امن فوج کافیصلہ حکومت اورپارلیمنٹ کرےگی:ڈی جی آئی ایس پی آرپاکستان اپنی سرحدوں،عوام کی حفاظت کیلئےتیارہے:ڈی جی آئی ایس پی آرپاکستان پالیسی بنانےمیں خودمختارہے:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریفتنہ الخوارج کےخلاف آپریشن میں1667دہشت گردمارےگئے:ڈی جی آئی ایس پی آرفوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریفوج کوسیاست سے دوررکھاجائے:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریجرائم پیشہ اوردہشت گردگروپ ملک میں جرائم،سمگلنگ روکنےمیں رکاوٹ ہیں:ڈی جی آئی ایس پی آرگورنرراج سےمتعلق فیصلےکااختیارحکومت کےپاس ہے:ڈی جی آئی ایس پی آرافغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتیں،دہشت گردی کاخاتمہ اہم ہے:ڈی جی آئی ایس پی آرافغانستان میں منشیات سمگلرزکی افغان سیاست میں مداخلت ہے:ڈی جی آئی ایس پی آرافغانستان سےبڑے پیمانےپرمنشیات پاکستان سمگل کی جارہی ہے:ڈی جی آئی ایس پی آرافغانستان کیلئےمحبت جاگ رہی ہےتو آپ وہیں چلےجائیں:ڈی جی آئی ایس پی آردہشت گرد عشرکےنام پرٹیکس لیتےہیں:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریزیادہ ترآپریشن بلوچستان میں ہوئے:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریحالیہ پاک افغان کشیدگی کےدوران206افغان طالبان مارےگئے:ڈی جی آئی ایس پی آرحالیہ پاک افغان کشیدگی کےدوران112فتنہ الخوارج ہلاک ہوئے:ڈی جی آئی ایس پی آرٹی ٹی پی نےافغان طالبان کےامیرکےنام پربیعت کی:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریٹی ٹی پی افغان طالبان کی شاخ ہے:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریبھارت گہرےسمندرمیں ایک اورفالس فلیگ آپریشن کی تیاری کررہاہے:ڈی جی آئی ایس پی آربھارت نے زمین،سمندراورفضامیں جوکچھ کرناہےکرے:ڈی جی آئی ایس پی آربھارت جان لے،اس بارجواب پہلےسےزیادہ شدیدہوگا:ڈی جی آئی ایس پی آراس سال62ہزار113آپریشن کیے،582فوجی جوان شہیدہوئے:ڈی جی آئی ایس پی آرمدارس کی تعداد2014میں48ہزار،اب ایک لاکھ سےزائدہے:ڈی جی آئی ایس پی آرافغانستان میں ہمارارسپانس سوئفٹ ہے:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریکوشش کی افغانستان کےساتھ معاملات طے ہوں:لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھریپاکستان کاون پوائنٹ ایجنڈاہے،افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو:ڈی جی آئی ایس پی آررواں سال62113آپریشن کیے،زیادہ تربلوچستان میں ہوئے:ڈی جی آئی ایس پی آر

وزیر اعلی کے پی کا تمام سیاسی جماعتوں سے امن مشاورت کے لئے جرگہ بلانے کا اعلان۔۔قومی اسمبلی کا ھنگامہ خیز اجلاس طلب بڑے پیمانے پر قانون سازی۔تحریک انصاف کے وزیر اعلی نے ریڈیو پاکستان پر حملے کی از خود انکوائری کا اعلان۔۔صوبہ اور وفاق امنے سامنے۔۔اٹک والوں کی بڑی بیٹھک۔۔بڑا قافلے کی کے پی سے امد ٹکرانے کا فائدہ کوں اٹھاے گا۔۔فواد چوھدری عمران اسماعیل زیدی کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں یہ چلے ھوے کارتوس ھے۔۔خفیہ اداروں کی رپورٹ کے بعد بڑی بیٹھک منگل کو۔۔شاہ محمود قریشی اور ڈوگر کی باز پرس عمران خان ان ایکشن۔۔آزاد کشمیر میں سیاسی کھیل انوارالھق کی جیت۔۔پاکستان اور ساوتھ افریقہ فیصل آباد میں آمنے سامنے۔۔سلمان اکرم راجہ کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات۔۔2 وزراء اعلی کی زندگی خطرے میں۔۔پاکستان پر بھارتی حملے کا خطرہ حقیقت میں کیا۔۔ تفصیلات بادبان ٹی وی پر

یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں کہ جب راولپنڈی ایک چھوٹا اور انتہائی پرسکون شہر ہوا کرتا تھا۔ 1980 ء کی دہائی تک شہر مریڑ چوک سے شروع ہو کر سکستھ روڈ پر ختم ہو جاتا تھا۔ اس وقت راولپنڈی میں نہ تو بے ہنگم ٹریفک کا اژدھام تھا نہ ہی صفائی ستھرائی کی ابتر حالت۔ تقریباً ہر چھوٹے بڑے گھر میں درخت اور پودے عام ہوا کرتے تھے۔ زیر زمین پانی کے وافر ذخائر کی وجہ سے شہر میں پانی کی کوئی قلت نہ تھی۔ تقریباً ہر دوسرے تیسرے گھر میں کنواں ہوا کرتا تھا بلکہ ہر محلے میں بھی ایک بڑا کنواں عام تھا جہاں سے بہشتی جنہیں پنڈی میں ماشکی کہا جاتا تھا چمڑے کے مشکیزوں میں گھر گھر پانی پہنچاتے تھے۔ ایسا ہی ایک بڑا کنواں چاہ سلطان تھا جس کی وجہ سے پورے علاقے کا نام سلطان دا کھوہ مشہور ہوگیا۔

راولپنڈی کی ایک خاص بات تازہ سبزیاں ہوا کرتی تھیں۔ کھنہ اور ترلائی کے مضافات سے منہ اندھیرے بیل گاڑیاں تازہ ترکاریوں اور پھلوں سے لدی آجاتی تھیں۔ آج کے شمس آباد سے فیض آباد کے درمیان کھیت ہوا کرتے تھے بلکہ آج کل کے بہت سے پرہجوم علاقے جسے چکلالہ ہاؤسنگ سکیم ’مسلم ٹاؤن‘ ائرپورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی وغیرہ وغیرہ کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ سب کھیت کھلیان اور زرعی رقبے تھے۔شہر کا مرکزی بس اڈا لیاقت باغ ہوتا تھا جسے 1976 ء یا 1977 ء میں پیرودھائی منتقل کیا گیا تھا۔ لیاقت باغ سے ہی مختلف شہروں اور قصبات کو بسیں جایا کرتی تھیں۔ مری روڈ شہر کی مرکزی شاہراہ تھی جسے غالباً 1976 ء میں شاہ ایران کے نام پر محمد رضا شاہ پہلوی روڈ کا نام دے دیا گیا تھا

۔ سڑک کے درمیان میں پودے ہوا کرتے تھے جن پہ موسمی پھول بہار کھلاتے تھے اور جی ہاں راولپنڈی میں ایک چاندنی چوک بھی ہوا کرتا تھا۔ اس چوک کے بیچوں بیچ ایک گول چمن تھا۔ چوک میں سے کمرشل مارکیٹ کی طرف جاتی سڑک پہ بہت خوش ذائقہ اور عمدہ دہی بھلے ملا کرتے تھے۔ کمرشل مارکیٹ کھلے برآمدوں اور کشادہ سڑکوں والی ایک چھوٹی سی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ یہ برآمدے اب بھی ہیں لیکن تجاویزات سے اٹ چکے ہیں۔چاندنی چوک سے کمرشل مارکیٹ کے درمیان سب رہائشی علاقہ تھا جس میں اونچے لمبے درخت سرسبز و شاداب پھول اور پودے تھے۔ یوں چاندی چوک سے کمرشل مارکیٹ ایک پرلطف واک ہوا کرتی تھی۔ راولپنڈی میں رکشے نہیں ہوتے تھے۔ ٹانگہ ایک مقبول عام سواری تھی۔ کھاتے پیتے لوگ کالی پیلی مورس ٹیکسی کو ترجیح دیتے تھے لیکن شہر میں ٹانگے کا ہی چلن تھا۔ فوارہ چوک ’کمیٹی چوک‘ چوک چاہ سلطان اور بنی چوک جسے اب شاید ”سنی“ چوک کہا جاتا ہے۔

بڑے ٹانگہ اسٹینڈ تھے۔ یہاں گھوڑوں کو پانی پلانے کے حوض بھی ہوا کرتے تھے۔چند علاقوں کو چھوڑ کر شہر عشاء کے بعد سنسان ہو جاتا تھا۔ گھر سے باہر کھانا کھانے کا رواج نہ تھا۔ رات کو اگر کچھ کھانے پینے کا موڈ ہوتا تو کمیٹی چوک پہ ایک دودھ دہی کی دکان مقبول تھی۔ کالج روڈ اور بنی محلہ میں تکے اور کباب کی دکانیں رات دیر تک کھلی رہتی تھیں۔ لیکن انہیں ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ گمان تھا کہ صرف اوباش اور آوارہ منش لوگ رات گئے ان جگہوں کا رخ کرتے تھے۔

اسلام آباد سے ائرپورٹ جانے کے لئے فیض آباد سے ڈائریکٹ سڑک تو موجود تھی لیکن زیادہ تر لوگ مری روڈ سے چاہ سلطان چوک کے راستے سے ائرپورٹ جاتے تھے۔ راقم الحروف نے بچپن میں کئی دفعہ اس سڑک پہ وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو ائرپورٹ آتے جاتے دیکھا تھا۔ اس زمانے میں وی آئی پی کے لئے ٹریفک بلکہ شہروں کو بند نہیں کیا جاتا تھا۔ شہر کی سیاسی قیادت خورشید حسن میر ’جاوید حکیم قریشی‘ اصلی شیخ رشید ایڈووکیٹ اور راجہ انور جیسے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ظرف شخصیات کے پاس تھی۔

ملک کے بہت سے اہم علمی اور ادبی نام راولپنڈی کے رہائشی تھے۔ مثلاً شفیق الرحمان ’ممتاز مفتی‘ سید ضمیر جعفری ’کرنل محمد خان‘ انور مسعود ’عزیز ملک بلکہ اگر لکھتے جائیں تو یہ لسٹ خاصی طویل ہو جائے گی۔شہر میں کھیلوں کے بہت سے میدان اور باغات تھے۔ مری روڈ پر تین بڑے میدان سنٹرل ہسپتال گراونڈ ’شبستا ن سینما اور لیاقت باغ گراؤنڈ واقع تھے اور ہر رہائشی علاقے میں کوئی نہ کوئی میدان یا پارک تھا۔ افسوس یہ سب تجاوزات اور عاقبت نا اندیش ڈویلپمنٹ کی بھینٹ چڑھ گیا۔”

“ برٹش انڈین بری فوج ”کے شمالی برصغیر کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر ہونے کی وجہ سے راولپنڈی کی اہمیت آزادی سے پہلے بھی تھی۔ مریڑ چوک سے آگے چھاؤنی کا علاقہ سرسبز ’خاموش اور انتہائی صاف ستھرا ہوا کرتا تھا۔ چھاؤنی کی تعمیرات میں وکٹورین اور برٹش راج کی طرز تعمیر نمایاں تھی۔ لیکن کنٹونمنٹ کا تذکرہ کسی اور نشست کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔تاریخی طور پر راولپنڈی ہندوؤں اور سکھوں کا شہر تھا۔ تقریباً سارے ہی قدیمی رہائشی علاقے مثلاً کرتا پورہ ’انگت پورہ‘ باغ سرداراں ’امرپورہ‘ موھن پورہ، آریہ محلہ، چٹیاں ہٹیاں ’ہندوؤں اور سکھوں کے بسائے تھے اور شہر کے زیادہ تر بیوپاری اور تاجر بھی ہندو یا سکھ ہی تھے۔ ویسے تو پرانے شہر کا حلیہ بگڑ کر رہ گیا ہے لیکن آج بھی بہت سے پرانے گھر اور خوبصورت تاریخی عمارات موجود ہیں۔ یہ شہر کا تاریخی ورثہ ہیں جنہیں سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ نہ جانے یہ کون کرے گا؟قارئین کرام یہ سب زمانہ قدیم کی باتیں نہیں ہیں۔ وہ تمام لوگ جو 70 اور 80 کی دہائیوں کے راولپنڈی کو دیکھ چکے ہیں۔ یقیناً اس پرسکون اور سرسبز و شاداب شہر کو نہیں بھولے ہوں گے جہاں سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ سب کو یاد ہوگا کہ راولپنڈی کیسا ہوا کرتا تھا اور اب کیا بن کر رہ گیا ہے

#پاک افغا!ن بارڈر ، شمالی وزیرستان کے قریب کوٹکئی علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے فیتنہ ،،الخوا،،رجوں در-ازںدی کی کوشش ناکام بنا دی۔#سیکورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا استعمال کیا ، متعدد خوا،،،رج جہ،،نم واصل متعدد زخمی ۔#سرچ آپریشن کے دوران دو لا-شیں ملیں، جبکہ باقی لا-شیں اور زخمیوں کو خوا،،رج اٹھاکر واپس افغا!نستان کی طرف فرار ہو گئے۔#نوٹ ،،،جہ،،،،نم واصل ہونے والے خار،،جیوں میں ایک خار،،جی کی شناخت دراصل افغا!ن فوج کا فعال سپاہی نکلا، جو سرحد کے پار تعاون اور دشمنانہ سرگرمیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ #نام : قاسم #رہائش پکتیا ضلع گیان سے تعلق رکھتا تھا باقی کی تفصیل وغیرہ اسکے شناختی کارڈ جنہیں افغا!نی تذکرہ کہتے ہیں پر واضح موجود ہے ۔۔

اپنے بیوروکریٹ دوستوں کے نام ۔۔اخلاق احمد تارڑ سیکرٹری ایکسائز پنجاب تھے , اُنہوں نے دلدار پرویز بھٹی کے بہنوئی کو معطل کر دیا,دلدار بھٹی اُن سے ملنے گئے,ساتھ مجھے بھی لے گئے , اُنہوں نے اُن سے کہا ۔۔ سر آپ نے جس ایکسائز انسپکٹر کو معطل کیا وہ میرا بہنوئی ھے , ازراہِ کرم اُسے بحال کر دیں ۔۔

سیکرٹری ایکسائز غصے سے بولے ۔۔دلدار، تینوں پتہ اے اوہ بہت رشوت لیندا اے ۔۔ دلدار بھٹی بولا ۔۔ سر جی اوہ ساہڈے کولوں پین (بہن) لے گیا اے تُسی رشوت لین دی گل کر رئے او ۔۔ یہ جملہ سُنتے ھی سیکرٹری ایکسائز نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور فرمایا ۔۔ جا بھٹی میں تیرے ایس جُملے دے صدقے اوہنوں بحال کیتا ۔۔پرسوں دلدار پرویز بھٹی کی اکتیسویں برسی پر یہ واقعہ مجھے یاد آگیا , میں نے سوچا اسے اپنے بیوروکریٹ دوستوں سے شئیر کر دُوں , ممکن ھے یہ واقعہ اُنہیں ہنسنے پر مجبور کر دے ورنہ جو حالات آج کل چل رھے ہیں ہمارے اکثر بیوروکریٹ ہنستے ھوئے بھی ڈرتے ہیں اُنہیں کوئی دیکھ نہ لے ۔۔ توفیق کی وال سےBaadban tv Twitter alert

‏اگر محمد اورنگزیب صرف حبیب بینک کے صدر ہی ہوتے آج پاکستان کے ویر خزانہ نہیں ہوتے ہو تو وہ آج انکی ماتحت FBR کی FIA میں رجسٹرڈ کرپشن کی FIR کے تحت یا تو گرفتار ہوچکے ہوتے یا کم از کم bail before arrest کی بھاگ دوڑ کررہے ہوتے کیونکہ FIR میں واضح الزام موجود ہے کہ اس وقت کے FBR chairman شبر زیدی نے HBL کو 7 ارب رپوں سے زائد کے refund کی ادائیگی کرکے زبردست کرپشن کی یاد رہے اس وقت اورنگزیب ہی HBL کے صدر تھے گویا شبر زیدی اور محمد اورنگزیب اس کیس میں co accused تھے ۰بہر حال سار credit جاتا ہے پاکستان میں جاری hybrid نظام کو کہ آج HBL ENGRO NISHAT GROUP آج FBR کرپشن کیس میں ملزمان کے کٹہرے میں سابق چئیر مین FBR شبر زیدی کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں اور یہ FIR پھرتی سے لپیٹ دی گئی ہے

ملک گیر وکلا انقلاب!وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں کی بار کونسلز میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بھاری اکثریت سے کامیابی— وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کی 27ویں آئینی ترمیم کا خواب چکنا چور! سرکاری وسائل، نوکریوں اور عہدوں کی بندر بانٹ کے باوجود وکلا نے حکومتی دباؤ کو مسترد کر دیا

طیفی بٹ کی موت کے بعد بیٹے نے گدی سنبھال لی ۔۔طورخم بارڈر اج کھلے گا تجارت کے لیے بند۔۔انسپکٹر نوید قتل سینکڑوں قتل کرنے والا خود قتل۔آزاد کشمیر میں الٹی گنتی سیدھی۔۔پاکستان میں 305 روز مے ایک ھزار قتل۔۔وفاقی حکومت خطرے میں 72 گھنٹے اھم۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیانات قومی سلامتی کے منافی۔۔ہندوستان اور امریکہ نے 10 سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا۔۔شاہ محمود قریشی جیل سے ھسپتال تحریک انصاف کے لوٹوں سے ملاقاتیں۔۔حکومت پاکستان کے عوام دشمن نہ رکنے والا سفر جاری پٹرول بم دھماکہ۔۔مھنگای مھنگای ھاے مھنگای گیس کے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ۔عوام مھنگای بے روزگاری سے تنگ حکومت کے اللے تللے جاری۔۔پٹرول کی قیمت میں 2 روپے 43 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا، نوٹیفیکیشن۔۔ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے 2 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا، نوٹیفیکیشن۔۔وزیر اعلی سھیل آفریدی کا ایمل ولی سے رابطہ۔۔ٹرمپ نے بھارت سے 10 سال کا معاہدہ کر لیا، بھارت کو جدید ہتھیاروں سمیت ہر طرح کی مدد فراہم کی جائے گی۔۔ تفصیلات بادبان ٹی وی پر

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان سے ٹیلی فونک رابطہ دونوں رہنماؤں کے درمیان صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے سینیٹر ایمل ولی خان کو اسپیکر پختونخوا اسمبلی کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی

دعوتسینیٹر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ پارٹی سے مشاورت کے بعد اے پی سی میں شرکت سے متعلق فیصلہ کیا جائے

شاہ محمود قریشی اچانک جیل سے ہسپتال منتقل ‘ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں فواد چوہدری ‘ مولوی محمود ‘ عمران اسماعیل کی ہسپتال میں شاہ محمود سے اچانک ملاقات ‘ نئی سیاسی ہلچلملاقات کیوں کی ؟ بڑی خبر نے طوفان برپا کردیامیاں محمود الرشید بھی کوٹ لکھپت جیل سے اسپتال منتقل

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیانات قومی سلامتی کے منافی اور پاکستان دشمنی پر مبنی ہیں۔ پاکستان کے بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے، مگر ان کی سوچ ایک شخص کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ پاکستان کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں، انسان آتے جاتے رہتے ہیں۔ پاکستان 25 کروڑ عوام کی ملکیت ہے۔ خواجہ آصف

کمال ہے! چوہدری انوارالحق جیسے “وزیراعظمِ کفایت شعار” شاید تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔ خزانے کی بچت کا یہ عالم کہ سینکڑوں ملازمین ریٹائر ہو گئے، مگر آسامیاں خالی کی خالی رہیں، تنخواہیں بچ گئیں تو قوم خوش ہو جائے نا؟لیکن جب بات آئی اپنی کرسی کے تحفظ کی، تو کفایت شعاری کا سبق کہیں گم ہو گیا۔

ایکشن کمیٹی کی عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے ڈیڑھ ارب روپے بیرونِ ریاست فورسز پر محض ڈھائی سال میں لٹا دیے گئے۔ یہ وہی وزیراعظم ہے جس کے حکم پر 15 نہتے شہری جان سے گئے، اور آج بھی سوشل میڈیا پر کچھ نابالغ عقلیں اسے “بہترین وزیراعظم” قرار دے کر داد دے رہی ہیں۔واقعی، اگر ظلم، خودپسندی، جھوٹ ، احسان فراموشی ، سازش ، منافقت، رعونت اور عوام دشمنی معیارِ عظمت ہے، تو چوہدری انوارالحق کو یقیناً تمغۂ ’’ںہترین وزیراعظم‘‘ ملنا ہی چاہیے لیکن ان کی ٹرین کا ٹکٹ کے چکا ہے ،۔

آصف علی زرداری پر تفتیش کے دوران تشدد کرنے اور سلمان تاثیر کو گرفتاری کے وقت تھپڑ مارنے والے پنجاب پولیس کے خوفناک انسپکٹر نوید پہلوان کا دِل دہلا دینے والاانجام ؟یہ وہی انسپکٹر نوید سعید المعروف نوید پہلوان تھا

جس کا نام کبھی پنجاب پولیس میں طاقت، رعب اور بےخوفی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ 1990 کی دہائی میں کھیلوں کے کوٹے پر پولیس میں آیا، مگر چند سالوں میں ترقی پاتے ہی طاقت کے نشے میں ایسا بگڑا کہ قانون کا محافظ خود قانون شکن بن گیا۔

لاہور کے خطرناک بدمعاشوں کو مقابلوں میں پار کیا، مگر اسی بہادری کے پردے میں ناجائز دولت سمیٹنے لگا۔ پراپرٹی کے کام کی آڑ میں زمینوں پر قبضے، لوگوں کو ڈرانا دھمکانا اور اثر و رسوخ کے زور پر چوہدراہٹ قائم کرنا اس کی عادت بن گئی۔ مشہور ہوا کہ کراچی میں ایک کیس کی تفتیش کے دوران اس نے آصف علی زرداری پر تشدد کیا،

اور پنجاب اسمبلی کے باہر سلمان تاثیر کو گرفتاری کے وقت تھپڑ مار دیا۔ مگر طاقت کا یہ غرور زیادہ دیر نہ چل سکا۔ کچھ عرصے بعد نیب نے اس کے خلاف ریفرنس دائر کیا تو بیرونِ ملک فرار ہوگیا۔ پلی بارگین کے بعد واپس آیا تو پھر سے پراپرٹی مافیا کے ساتھ جڑ گیا، لیکن قسمت نے مہلت نہ دی۔ رائیونڈ میں ایک قبضے کے تنازعے میں اسی شخص کے بیٹوں نے، جسے کبھی اس نے ذلیل کیا تھا،

گھیر کر اسے اور اس کے ساتھیوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ یوں نوید پہلوان، جو کبھی خوف کی علامت تھا، عبرت کی نشانی بن گیا۔ دولت، طاقت اور زمینیں پیچھے رہ گئیں، اور اس کا خاندان آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ سچ ہے، ظلم اور غرور کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔