متحدہ عرب امارات کے ڈوبنے کا خطرہ ریڈ الرٹ جاری کر دیا۔ تفصیلات بادبان ٹی وی پر

امارات میں ایک بار پھر طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے ، ریڈ الرٹ جاری کیاگیا ہے۔اماراتی محکمہ موسمیات (نیشنل سینٹر آف میٹرولوجی) کے مطابق بدھ کی شام سے جمعرات تک شدید بارشوں کا امکان ہے، متحدہ عرب امارات بحیرہ احمر سے سطحی کم دباؤ کی توسیع سے متاثر ہے، مرطوب جنوب مشرقی ہوائیں بھی عرب امارات کے موسم پراثرانداز ہوں گی۔دوسری جانب متحدہ عرب امارات میں شدید بارشوں کے باعث ریڈ الرٹ جاری کیاگیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے ترجمان کے مطابق گرج چمک کے ساتھ شدید بارشوں کا امکان ہے جب کہ کچھ مقامات پر ژالہ باری بھی ہوسکتی ہے ، اس دوران تیز ہواؤں کی رفتار 65 کلومیٹر کی فی گھنٹہ ریکارڈ ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔

تھانہ ترنول مین پولیس کے ھاتھوں ملزم قتل۔قتل چھپوانے کے لیے خودکشی کا ڈرامہ

تھانہ ترنول سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والا ملزم تھانے کی چھت سے گر کر جاں بحق ہوگیا۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ تھانہ ترنول کے مقدمہ میں نامزد ملزم کو وارنٹ حاصل کرنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا،ملزم نے دوران حراست فرار کی کوشش کی ،ملزم نے تھانے کی چھت سے ساتھ والے گھر میں چھلانگ لگا دی تھی جس سے وہ زخمی ہوگیا،زخمی ملزم کو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں علاج معالجہ بھی ہوتا رہا لیکن ملزم جانبر نہ ہوسکا۔

رانا سناالہ کو وزارت اطلاعات یا وزارت قانون دہنے کا فیصلہ ذرائع بادبان نیوز کے مطابق رانا ثناءاللہ نے اپنی ٹیم لانے کی شرط پر وزارت اطلاعات سنبھال سکتے ہیں حتمی فیصلہ نواز شریف وزیراعظم کی مشاورت سے کرینگے دوسری طرف وزارت اطلاعات کی سیکرٹری شاھیرہ شاھد چھٹیوں پر جارھی ھے انکی جگہ مبشر توقیر شاہ سیکرٹری اطلاعات ھونگے بادبان رپورٹ سھیل رانا

پولیس میں اضطراب کیا پولیس ھڑتال کرنے جارھی ھے تفصیلات جانی بادبان ٹی وی پر

پہلے سید علی ناصر رضوی کی بطور آئی جی اسلام آباد تعیناتی تقریباً بیس روز تک تنازعہ کا شکار بنی رہی اور وہاں پہلے سے تعینات ڈی آئی جی عہدے کے تین سینئر افسران شعیب خرم جانباز،حسن رضا خان اور محمد اویس نے ایک جونیئر آئی جی کے ماتحت کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے رخصت کی درخواست دیدی۔ جبکہ سید علی ناصر رضوی کی جگہ لاہور میں تعینات ہونے والے نئے ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کی تعیناتی کو بھی کافی متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے اور اس سیٹ پر ایک موسٹ جونیئرکی تعیناتی نے پنجاب حکومت کی گورننس پر سوال اٹھایا ہے۔فیصل کامران کے انتخاب پر پولیس سروس کے اندر سے بھی آوازیں اٹھی ہیں۔فیصل کامران کو بطور ڈی آئی جی آپریشنز مقرر کرنے کے بعد خبروں کے مطابق پنجاب بھر کے سینئر پولیس افسران میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور انھوں نے کافی کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔پنجاب کے ایک سینئر پولیس آفیسرسے اس بابت سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کی موجودہ صورتحال نہایت مایوس کن ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فیصل کامران ایک ایماندار شہرت کے حامل افسر ہیں تاہم یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے جس کا اثر ادارے پر آئے گا اور اس سے جونیئر افسران کے مورال پر بھی اثر پڑے گا۔کسی بھی فورس کے لیے ضروری ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر تبادلے کیے جائیں۔سینئر پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ جب ایک افسر کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا ہو کہ انھیں ابھی کئی سال پروموشن نہیں دی جائے گی، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انھیں ایک بڑے عہدے یعنی ڈی آئی جی لاہور کے طور پر تعینات کر دیا جائے۔ماضی میں بھی ایسے فیصلوں کے پیش نظر کئی بڑے سانحات پیش آئے ہیں جن میں سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی شامل ہے۔یادرہے جونیئر افسران کی تعیناتی کامعاملہ پہلی بار سامنے نہیں آیا ملک بھر میں ایسی تعیناتیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ایک سابق آئی جی پولیس پنجاب کی جب تعیناتی عمل میں لائی گئی تو پنجاب میں تعینات سینئر افسران طارق مسعود یاسین سمیت تین افسران نے ان کے ماتحت کام کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا مرحوم عمر شیخ تنازعہ کے دوران اس وقت کے آئی جی پولیس کو گھر جانا پڑا جبکہ ایک دیگر سابق آئی جی پولیس کی مرضی کی مشاورت کے بغیر بھی کئی ایک کو تعینات کیاگیا۔ اس وقت سے آج تک پنجاب پولیس تناذعات کا شکار چلی آرہی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آئی جی پولیس کو با اختیار نہیں بنایا گیاجس سے یہ ادارہ کمزور اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ناکام رہا اس میں کو ئی شک نہیں کہ موجودہ آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس ادارے میں پائی جانے والی بہت سی خرابیوں کا خاتمہ کر کے اس کی سر بلندی کے لیے بہت کام کیا ہے۔لیکن پنجاب پولیس کے سارے افسران ان سے بھی خوش نہیں ہیں اور انہیں تبدیل کروانے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں۔ان پر بھی الزام ہے کہ کمانڈر بہت سارے افسران کو تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ دوسری جانب موجودہ آئی جی پولیس پنجاب پر الزام ہے کہ وہ جرائم کی شرح کو کنٹررول کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں انہوں نے صوبہ بھر کی پولیس کو سوشل میڈیا پر لگا دیا ہے۔ جبکہ آئی جی پولیس کا موقف ہے کہ انہوں نے افسران کو سوشل میڈیا کے ساتھ جرائم کی شرح کو بھی کنٹرول کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے۔1992ء_ میں راولپنڈی میں پولیس کا عالمی سطح کا ایک سیمینار ہوا تھا جس میں شرکت کیلئے بیرون ملک سے بے شمار پولیس افسران پاکستان آئے۔ان افسران میں جاپان کا پولیس چیف بھی شامل تھا سیمینار کے بعد ڈنر تھا۔ ڈنر میں راولپنڈی کے ڈی آئی جی اور جاپان کے چیف ایک میز پر بیٹھ گئے۔ دونوں نے گفتگو شروع کردی، گفتگو کے دوران ڈی آئی جی نے جاپانی چیف سے پوچھا آپ لوگوں پرکبھی سیاسی دباؤ نہیں آتا؟جاپانی چیف نے تھوڑی دیر سوچا اور اس کے بعد جواب دیا صرف 1963ء_ میں ایک بار آیا تھا، چیف نے بتایا کہ 1963 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جاپان کے دورے پر آئے تھے وہ ایک دن کیلئے اوسا شہر چلے گئے۔ دوسرے دن ان کی جاپانی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات تھی۔ انہو ں نے اوسا سے سیدھا پرائم منسٹر ہاؤس آنا تھا راستے میں ٹریفک جام ہوگئی، ان کے ساتھ موجود پروٹوکول افسران نے ہمارے پولیس چیف سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ پولیس کسی خصوصی بندوبست کے ذریعے انہیں ٹوکیو پہنچا دے۔ پروٹوکول افسروں کا کہنا تھاکہ برطانوی وزیرخارجہ کی وزیراعظم سے ملاقات بہت ضروری ہے۔ اگر وہ انہیں وقت پر نہیں ملتے تو یہ ملاقات ملتوی ہو جائے گی کیونکہ ایک گھنٹے کے بعد وزیراعظم چین کے دورے پر روانہ ہو جائیں گے۔ پولیس چیف نے ان کی بات سن کر معذرت کرلی اس کے بعد وزیراعظم نے بذات خود پولیس چیف سے درخواست کی، لیکن پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وی آئی پی کو ٹریفک سے نکالنے کا کوئی بندوست نہیں ہے یہ ملاقات منسوخ ہوگئی۔ اس ملاقات کے منسوخ ہونے کی وجہ سے جاپان اوربرطانیہ کے تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی۔ جاپان کے پولیس چیف خاموش ہوگئے۔ہمارے ڈی آئی جی نے شدت جذبات سے پہلو بدلہ اوران سے پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ پولیس چیف مسکرائے اور کہا اس کے بعد کیا ہونا تھا یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔ لوگوں نے وزیراعظم کے رویئے پرشدید احتجاج کیا، وزیراعظم کو قوم اور پولیس دونوں سے معافی مانگا پڑی۔ ہمارے ڈی آئی جی کیلئے یہ انوکھی بات تھی چنانچہ انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ اگر پولیس کے انکار سے وزیراعظم برا مان جائے اور دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا؟ پولیس چیف نے تھوڑی دیر سوچا پھر اس کے بعد مسکرا کر بولا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا وزیراعظم کبھی پولیس چیف کے ساتھ لڑائی نہ کرتا لیکن بالفرض اگر دونوں میں جنگ چھڑ جاتی تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وزیراعظم کو استعفی دینا پڑ جاتا۔ ہمارے ڈی آئی جی صاحب کا رنگ پیلا پڑ گیا اور انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیاجاپان میں پولیس چیف اتنا مضبوط ہوتا ہے؟ جاپانی پولیس چیف نے ہنس کر جواب دیا کہ نہیں ہمارے ملک کا قانون انصاف اور سلامتی کا نظام بہت مضبوط ہے۔ ہم نے عوام کی حفاظت کیلئے پولیس لگا رکھی ہے وی آئی پی کو پروٹوکول دینے کیلئے نہیں۔ لہٰذا جاپان کا ہر شخص جانتا ہے کہ اگر وزیراعظم اور پولیس چیف میں لڑائی ہوگی تو اس میں وزیراعظم کا ہی قصور ہوگا۔ لہٰذا استعفی اسے ہی دینا پڑے گا کیونکہ یہ ملک عوام کا ہے۔لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے جہاں اداروں میں سفارش کے بل بوتے پر تعیناتیاں عمل میں لائی جائیں سنیارٹی کا بھی خیال نہ رکھا جائے جس ایم پی اے یا ایم این کے کہنے پر افسران تعینات کیے جائیں گے وہ اسی کی بات مانیں گے نہ کہ کمانڈر کی۔

85 ارب روپے کمانا والہ کاکڑ گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر عون عباس نے دعویٰ کیا ہے کہ نگراں حکومت میں ایک شخص نے یوکرین سے گندم درآمد کرکے 85 ارب روپے کا منافع کمایا گندم خریداری کے معاملے اور کسانوں کے احتجاج پر بات کرتے ہوئے عون عباس نے کہا کہ پنجاب میں مال روڈ پر کسانوں کے ساتھ کیا کچھ ہوا ہے۔پروگرام میں شریک مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری بولے جس طرح کسان مظلوم ہے اسی طرح پنجاب حکومت بھی مظلوم ہے، جبکہ آزاد حیثیت میں منتخب سینیٹر فیصل واوڈا نے مطالبہ کیا کہ جو بھی گندم درآمد اسکینڈل میں ملوث ہے، اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔انہوں نے قائل کرلیا کہ اگر میں واقعی عظیم کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہوں تو پھر خطرہ مول ہی لینا پڑے گا اور صلاحیتوں کو امتحان کی بھٹی سے گزارنا ہی ہوگا ینیٹر عباس نے مذاکرات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ہورہے ہیں نہ ہم مذاکرات چاہتے ہیں، اگر ہمیں بات کرنی ہوئی تو ہم ان سے کریں گے جن کے پاس اتھارٹی ہوگی، جن کے پاس اپنا کوئی وزیر داخلہ نہیں ان سے کوئی کیا مذاکرات کرے گا؟ عون عباس نے کہا کہ ہمیں کیوں مذاکرات کرنے ہیں؟ ہمیں کوئی مذاکرات کی ضرورت نہیں، اسمبلی میں اعظم نذیر تارڑ اور عطا تارڑ کے علاوہ کوئی نہیں آتا، ڈپٹی وزیر اعظم کی کوئی آئینی پاور نہیں ہے۔

حرام اسمبلی حلال مولانا فضل الرھمان کی آمد۔ مولانا فضل الرھمان 4 ارکان اسمبلی کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنا چاہئے ھے۔ مولانا فضل الرھمان 2002 کی اسمبلی والہ کردار ادا کرنا چاھتے ھے۔ وہ اتحادی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ظاھری طور پر بلیک میل کرنے کی ایکٹینگ کر کے اپنے بیٹے اور ساتھیوں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں

مولانا فضل الرھمان نئی بوتل پرانی شراب شاعر حکومت میں اپنا حصہ مانگ رھا ھے۔ تفصیلات کے لیے کلک کریں

مولانا فضل الرحمان ان فائرنواز شریف اور شہباز شریف کو حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کرنے یا پھر عوام میں جانے کی تجویز دے دی۔۔۔ ساتھ ہی دھمکی بھی دے دی 2 مئی کو کراچی میں ملین مارچ ہو گا جس نے روکنے کی کوشش کی مصیبت اسی کے لیے بنے گی